الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِمَارَةِ امور حکومت کا بیان 13. باب الأَمْرِ بِلُزُومِ الْجَمَاعَةِ عِنْدَ ظُهُورِ الْفِتَنِ وَتَحْذِيرِ الدُّعَاةِ إِلَى الْكُفْرِ: باب: فتنہ اور فساد کے وقت بلکہ ہر وقت مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہنا۔
سیدنا حذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھلی باتوں کو پوچھا کرتے اور میں بری بات کو پوچھتا اس ڈر سے کہیں برائی میں نہ پڑ جاؤں۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! ہم جاہلیت اور برائی میں تھے پھر اللہ تعالیٰ نے ہم کو یہ بھلائی دی (یعنی اسلام) اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لیکن اس میں دھبہ ہے۔“ میں نے کہا: وہ دھبہ کیسا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایسے لوگ ہوں گے جو میری سنت پر نہیں چلیں گے اور میرے طریقہ کے سوا اور راہ پر چلیں گے ان میں اچھی باتیں بھی ہوں گی اور بری بھی۔“ میں نے عرض کیا، پھر اس کے بعد برائی ہو گی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ایسے لوگ پیدا ہوں گے جو جہنم کے دروازے کی طرف لوگوں کو بلائیں گے جو ان کی بات مانے گا اس کو جہنم میں ڈال دیں گے۔“ میں نے کہا: یا رسول اللہ! ان لوگوں کا حال ہم سے بیان فرمایئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ان کا رنگ ہمارا سا ہی ہو گا اور ہماری ہی زبان بولیں گے۔“ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اگر اس زمانہ کو میں پاؤں تو کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں کی جماعت کے ساتھ رہ اور ان کے امام کے ساتھ رہ۔“ کہا: اگر جماعت اور امام نہ ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو سب فرقوں کو چھوڑ دے اور اگرچہ ایک درخت کی جڑ دانت سے چباتا رہے مرتے دم تک۔“
سیدنا خذیفہ بن الیمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم برائی میں تھے پھر اللہ نے بھلائی دی، اب اس کے بعد بھی کچھ برائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: پھر اس کے بعد بھلائی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا پھر اس کے بعد برائی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ میں نے کہا: کیسے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد وہ لوگ حاکم ہوں گے جو میری راہ پر نہ چلیں گے، میری سنت پر عمل نہیں کریں گے، اور ان میں ایسے لوگ ہوں گے جن کے دل شیطان کے سے اور بدن آدمیوں کے سے ہوں گے۔“ میں نے عرض کیا، یا رسول اللہ! اس وقت میں کیا کروں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو ایسے زمانہ میں ہو تو سن اور مان حاکم کی بات کو اگرچہ وہ تیری پیٹھ پھوڑے اور تیرا مال لے لے پر اس کی بات سنے جا اور اس کا حکم مانتا رہ۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص حاکم کی اطاعت سے باہر ہو جائے اور جماعت کا ساتھ چھوڑ دے پھر وہ مرے تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی اور جو شخص اندھے جھنڈے کے تلے لڑے (جس لڑائی کی درستی شریعت سے صاف صاف ثابت نہ ہو) غصہ ہو قوم کے لحاظ سے یا بلاتا ہو قوم کی طرف یا مدد کرتا ہو قوم کی اور اللہ کی رضامندی مقصود نہ ہو، پھر مارا جائے تو اس کا مارا جانا جاہلیت کے زمانے کا سا ہو گا اور جو شخص میری امت پر دست درازی کرے اور اچھے اور بروں کو ان میں کے قتل کرے اور مؤمن کو بھی نہ چھوڑے اور جس سے عہد ہوا ہو، اس کا عہد پورا نہ کرے تو وہ مجھ سے علاقہ نہیں رکھتا اور میں اس سے تعلق نہیں رکھتا۔“ (یعنی وہ مسلمان نہیں ہے۔)
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اطاعت سے نکل جائے اور جماعت چھوڑ دے پھر مرے تو اس کو موت جاہلیت کی سی ہو گی اور جو شخص ایذا دہندہ جھنڈے کے تلے مارا جائے جو غصہ ہوتا ہو قوم کے پاس سے اور لڑتا ہو قوم کے خیال سے وہ میری امت میں سے نہیں ہے اور جو میری امت پر نکلے مارتا ہوا ان کے نیکوں اور بدوں کو مؤمن کو بھی نہ چھوڑے جس سے عہد ہو وہ بھی پورا نہ کرے تو وہ میری امت میں سے نہیں ہے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے حاکم سے بری بات دیکھے وہ صبر کرے اس لیے کہ جو جماعت سے بالشت بھر جدا ہو جائے اس کی موت جاہلیت کی موت ہو گی۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے حاکم سے بری بات دیکھے وہ صبر کرے کیونکہ جو کوئی بادشاہ سے بالشت بھر جدا ہو پھر مرے اسی حالت میں، اس کی موت جاہلیت کی سی موت ہو گی۔
سیدنا جندب بن عبداللہ بجلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اندھے جھنڈے کے تلے مارا جائے اور بلاتا ہو تعصب اور قومی طرفداری کی طرف یا مدد کرتا ہو قومی تعصب کی تو اس کا قتل جاہلیت کا سا ہو گا۔“
سیدنا نافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما عبداللہ بن مطیع کے پاس آئے جب حرہ کا واقعہ ہوا یزید بن معاویہ کے زمانہ میں، اس نے مدینہ منورہ پر لشکر بھیجا اور مدینہ والے حرہ میں جو ایک مقام ہے مدینہ سے ملا ہوا قتل ہوئے اور طرح طرح کے ظلم مدینہ والوں پر ہوئے۔ عبداللہ بن مطیع نے کہا: ابوعبدالرحمٰن (یہ کنیت سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کی) کے لیے توشک بچھاؤ۔ انہوں نے کہا: میں اس لیے نہیں آیا کہ بیٹھوں بلکی ایک حدیث تجھ کو سنانے کے لیے آیا جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص اپنا ہاتھ نکال لے اطاعت سے وہ قیامت کے دن اللہ سے ملے گا اور کوئی دلیل اس کے پاس نہ ہو گی اور جو شخص مر جائے اور کسی سے اس نے بیعت نہ کی ہو تو اس کی موت جاہلیت کی سی ہو گی۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
|