الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْفَرَائِضِ وراث کے مقررہ حصوں کا بیان 2. باب مِيرَاثِ الْكَلاَلَةِ: باب: کلالہ کی وراثت کا بیان۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے میں بیمار ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں پیدل میرے پوچھنے کو آئے۔ میں بے ہوش ہو گیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، پھر وضو کا پانی میرے اوپر ڈالا مجھے ہوش آ گیا میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کا کیا فیصلہ کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت اتری: «يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى الْكَلاَلَةِ» (۴-النساء:۱۷۶) اخیر تک۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، بیمار پرسی کی میری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بنی سلمہ میں پیدل آ کر تو دیکھا مجھے بے ہوش۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی منگایا اور وضو کیا۔ پھر اس پانی سے تھوڑا مجھ پر چھڑکا، مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال کا کیا کروں؟ (یعنی کیونکر بانٹوں) تب یہ آیت اتری: «يُوصِيكُمُ اللَّهُ فِى أَوْلاَدِكُمْ لِلذَّكَرِ مِثْلُ حَظِّ الأُنْثَيَيْنِ» (۴-النساء:۱۱) اخیر تک۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری عیادت کی اور میں بیمار تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے اور دونوں پیدل آئے۔ مجھ کو بے ہوش پایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور اپنے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، مجھے ہوش آ گیا دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں، میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں اپنے مال میں کیا کروں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ جواب نہ دیا یہاں تک کہ میراث کی آیت اتری۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس آئے اور میں بیمار تھا بے ہوش۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا، لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا پانی مجھ پر ڈالا، مجھے ہوش آ گیا۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میرا ترکہ تو کلالہ کا ہو گا (کلالہ وہ ہے جس کی اولاد نہ ہو نہ باپ۔ اس کی تفسیر آگے آئے گی) تب میراث کی آیت اتری۔ شعبہ نے کہا: میں نے محمد بن منکدر سے کہا: «يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّهُ يُفْتِيكُمْ فِى الْكَلاَلَةِ» انہوں نے کہا: اسی طرح اتری۔
اوپر والی حدیث اس سند سے بھی بیان ہوئی ہے۔
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے خطبہ پڑھا جمعہ کے دن تو ذکر کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا۔ اور ذکر کیا سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا، پھر کہا: میں اپنے بعد کوئی مسئلہ ایسا مشکل نہیں چھوڑتا جیسے کلالہ کا مسئلہ۔ اور میں نے کوئی مسئلہ ایسا بار بار نہیں پوچھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جیسے کلالہ کا پوچھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایسی سختی کسی بات میں نہیں کی مجھ سے جیسے کلالہ میں کی، یہاں تک کہ اپنی انگلی مبارک میرے سینے میں کونچی اور فرمایا: ”اے عمر! تجھ کو بس نہیں ہے وہ آیت جو گرمی کے موسم میں اتری سورہ نساء کے اخیر میں۔“ پھر کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اگر میں جیوں گا، تو کلالہ کے باب میں ایسا حکم (صاف صاف) دوں گا کہ اس کے موافق ہر شخص فیصلہ کرے جو قرآن پڑھتا ہے اور جو نہیں پڑھتا۔
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
|