الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْمُسَاقَاةِ سیرابی اور نگہداشت کے عوض پھل وغیرہ میں حصہ داری اور زمین دے کر بٹائی پر کاشت کرانا 6. باب فَضْلِ إِنْظَارِ الْمُعْسِرِ: باب: مفلس کو مہلت دینے کی اور قرض وصول کرنے میں آسانی کرنے کی فضیلت۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”فرشتے تم سے پہلے کے ایک شخص کی روح لے چلے تو اس سے پوچھا: تو نے کوئی نیک کام کیا ہے وہ بولا: نہیں۔ فرشتوں نے کہا: یاد کرو وہ بولا: میں لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا پھر اپنے جوانوں کو حکم کرتا کہ جو شخص مفلس ہو اس کو مہلت دو، اس پر تقاضا نہ کرو اور جو شخص مالدار ہو اس پر آسانی کرو (نرمی کرو یا تھوڑے سے نقصان پر خیال نہ کرو۔ مثلاً روپیہ ٹوٹا یا پھوٹا ہو تو لے لو بہت سختی نہ کرو) اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”تم بھی اس پر آسانی کرو۔“ (اور اس کے گناہوں سے درگزر کرو)۔
ربعی بن حراش سے روایت ہے، حذیفہ اور ابومسعود رضی اللہ عنہما دونوں ملے تو حذیفہ رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک شخص ملا اپنے پروردگار سے تو پروردگار نے پوچھا: تو نے کیا عمل کیا ہے؟ وہ بولا: میں نے کوئی نیکی نہیں کی۔ مگر یہ کہ میں مالدار شحص تھا، تو لوگوں سے اپنا قرض مانگتا، جو مالدار ہوتا اس کے کہنے کے موافق میں بیع کو توڑ ڈالتا۔ (یعنی جس معاملہ میں اس کو نقصان معلوم ہوتا اور وہ یہ چاہتا کہ معاملہ فسخ ہو جائے تو میں فسخ کر ڈالتا اپنے نفع کے لیے اس کا نقصان گوارہ نہیں کرتا) اور جو مفلس ہوتا اس کو معاف کر دیتا تو پروردگار نے فرمایا (فرشتوں سے): ”تم بھی درگزر کرو میرے بندے سے۔“ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسا ہی سنا ہے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص مر گیا۔ پھر وہ جنت میں گیا اس سے پوچھا گیا: تو کیا عمل کرتا تھا؟ سو اس نے خود کو یاد کیا یا یاد دلایا گیا۔ اس نے کہا: میں (دنیا میں) مال بیچتا تھا تو مفلس کو مہلت دیتا اور سکہ یا نقد میں درگزر کرتا (اس کے نقصان یا عیب سے اور قبول کر لیتا) اس وجہ سے اس کی بخشش ہو گئی۔“ سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے اس کو سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
سیدنا حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، اللہ عزوجل کے پاس اس کا ایک بندہ لایا گیا جس کو اس نے مال دیا تھا۔ تو اللہ تعالیٰ نے اس سے پوچھا: تو نے دنیا میں کیا عمل کیا؟ اور اللہ سے کچھ نہیں چھپا سکتے۔ بندے نے کہا: اے میرے مالک! تو نے اپنا مال مجھ کو دیا تھا میں لوگوں کے ہاتھ بیچتا تھا اور میری عادت تھی درگزر کرنے کی (اور معاف کرنے کی) تو میں آسانی کرتا تھا مالدار پر اور مہلت دیتا تھا نادار کو۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”پھر میں تو زیادہ لائق ہوں معاف کرنے کے لیے تجھ سے، درگزر کرو میرے بندے سے۔“ پھر سیدنا عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابومسعود انصاری رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے ایسا ہی سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ مبارک سے۔
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم سے پہلے ایک شخص کا حساب ہوا تو اس کی کوئی نیکی نہ نکلی مگر اتنی کہ وہ لوگوں سے معاملہ کرتا تھا اور مالدار تھا تو اپنے غلاموں کو حکم کرتا نادار کو معاف کر دینے کا۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ہم زیادہ حق رکھتے ہیں معاف کرنے کا تجھ سے اور حکم دیا کہ معاف کرو اس کے گناہوں کو۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک شخص لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا وہ اپنے نوکروں سے کہتا جو مفلس ہو اس کو معاف کر دینا شاید اللہ تعالیٰ اس کے بدلے ہم کو معاف کرے، پھر وہ اللہ تعالیٰ سے ملا اللہ نے اس کو بخش دیا۔“
اس سند سے بھی مذکورہ بالا حدیث مروی ہے۔
عبداللہ بن ابی قتادہ سے روایت ہے۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ایک قرض دار کو ڈھونڈھا، وہ چھپ گیا، پھر اس کو پایا تو وہ بولا: میں نادار ہوں۔ ابوقتادہ نے کہا: اللہ کی قسم! اس نے کہا: اللہ کی قسم! تب ابوقتادہ نے کہا: میں نے سنا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جس شخص کو بھلا معلوم ہو کہ اللہ اس کو نجات دے قیامت کے دن کی سختیوں سے تو وہ مہت دے نادار کو یا معاف کر دے اس کو۔“
مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی مروی ہے۔
|