وحدثنا عمرو بن سواد العامري ، وحرملة بن يحيى ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، اخبرني يونس ، ان ابن شهاب اخبره، قال: اخبرني عروة بن الزبير ، ان عائشة زوج النبي صلى الله عليه وسلم، قالت: اعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم ليلة من الليالي بصلاة العشاء، وهي التي تدعى العتمة، فلم يخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، حتى قال عمر بن الخطاب: " نام النساء والصبيان، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال لاهل المسجد حين خرج عليهم: ما ينتظرها احد من اهل الارض غيركم، وذلك قبل ان يفشو الإسلام في الناس "، زاد حرملة في روايته، قال ابن شهاب: وذكر لي ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: وما كان لكم ان تنزروا رسول الله صلى الله عليه وسلم على الصلاة، وذاك حين صاح عمر بن الخطاب.وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ سَوَّادٍ الْعَامِرِيُّ ، وَحَرْمَلَةُ بْنُ يَحْيَى ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي يُونُسُ ، أَنَّ ابْنَ شِهَابٍ أَخْبَرَهُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ ، أَنَّ عَائِشَةَ زَوْجَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَعْتَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَةً مِنَ اللَّيَالِي بِصَلَاةِ الْعِشَاءِ، وَهِيَ الَّتِي تُدْعَى الْعَتَمَةَ، فَلَمْ يَخْرُجْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: " نَامَ النِّسَاءُ وَالصِّبْيَانُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لِأَهْلِ الْمَسْجِدِ حِينَ خَرَجَ عَلَيْهِمْ: مَا يَنْتَظِرُهَا أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ غَيْرُكُمْ، وَذَلِكَ قَبْلَ أَنْ يَفْشُوَ الإِسْلَامُ فِي النَّاسِ "، زَادَ حَرْمَلَةُ فِي رِوَايَتِهِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: وَذُكِرَ لِي أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: وَمَا كَانَ لَكُمْ أَنْ تَنْزُرُوا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الصَّلَاةِ، وَذَاكَ حِينَ صَاحَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ.
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء میں دیر کی جسے لوگ عتمہ کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہ نکلے یہاں تک کہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ عورتیں اور لڑکے سو گئے۔ پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد والوں سے جب نکلے کہ ”سوائے تمہارے کوئی اس نماز کا انتظار نہیں کرتا۔“(یہ بشارت دی کہ لوگ خوش ہو جائیں) اور یہ واقعہ لوگوں میں اسلام پھیلنے سے پہلے کا تھا۔ حرملہ نے اپنی روایت میں یہ بات زیادہ کی کہ ابن شہاب نے کہا: اور ذکر کیا مجھ سے راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگوں کو یہ جائز نہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز کا تقاضا کرو“ اور یہ جب فرمایا کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے پکارا تھا۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز عشاء میں دیر لگائی یہاں تک کہ رات کا بڑا حصہ گزر گیا اور مسجد میں جو لوگ تھے سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ”اس کا وقت یہی ہے اگر مجھے یہ خیال نہ ہوتا کہ میں اپنی امت پر مشقت نہ ڈالوں“ اور عبدالرزاق کی روایت میں ہے کہ ”اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی۔“
وحدثني زهير بن حرب ، وإسحاق بن إبراهيم ، قال إسحاق ، اخبرنا وقال زهير : حدثنا: جرير ، عن منصور ، عن الحكم ، عن نافع ، عن عبد الله بن عمر ، قال: مكثنا ذات ليلة ننتظر رسول الله صلى الله عليه وسلم لصلاة العشاء الآخرة، فخرج إلينا، حين ذهب ثلث الليل او بعده، فلا ندري اشيء شغله في اهله، او غير ذلك، فقال حين خرج: " إنكم لتنتظرون صلاة، ما ينتظرها اهل دين غيركم، ولولا ان يثقل على امتي، لصليت بهم هذه الساعة "، ثم امر المؤذن، فاقام الصلاة وصلى ".وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَإِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، قَالَ إِسْحَاق ، أَخْبَرَنَا وَقَالَ زُهَيْرٌ : حَدَّثَنَا: جَرِيرٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ نَافِعٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، قَالَ: مَكَثْنَا ذَاتَ لَيْلَةٍ نَنْتَظِرُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِصَلَاةِ الْعِشَاءِ الآخِرَةِ، فَخَرَجَ إِلَيْنَا، حِينَ ذَهَبَ ثُلُثُ اللَّيْلِ أَوْ بَعْدَهُ، فَلَا نَدْرِي أَشَيْءٌ شَغَلَهُ فِي أَهْلِهِ، أَوْ غَيْرُ ذَلِكَ، فَقَالَ حِينَ خَرَجَ: " إِنَّكُمْ لَتَنْتَظِرُونَ صَلَاةً، مَا يَنْتَظِرُهَا أَهْلُ دِينٍ غَيْرُكُمْ، وَلَوْلَا أَنْ يَثْقُلَ عَلَى أُمَّتِي، لَصَلَّيْتُ بِهِمْ هَذِهِ السَّاعَةَ "، ثُمَّ أَمَرَ الْمُؤَذِّنَ، فَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَصَلَّى ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم ایک دن ٹھہرے رہے۔ نماز عشاء کے واسطے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے تھے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف نکلے جب تہائی رات گزر گئی یا اس کے بعد پھر ہم نہیں جانتے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر میں کچھ کام ہو گیا تھا یا کچھ اور تھا۔ پھر فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکلے کہ ”تم انتظار کرتے تھے ایسی نماز کا کہ تمہارے سوا کوئی دین والا اس کا انتظار نہیں کرتا تھا۔ اگر میری امت پر بار نہ ہوتا تو میں ہمیشہ ان کے ساتھ اسی وقت یہ نماز پڑھا کرتا“ پھر مؤذن کو حکم فرمایا۔ اس نے اقامت کہی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی۔
وحدثني محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني نافع ، حدثنا عبد الله بن عمر ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، شغل عنها ليلة فاخرها، حتى رقدنا في المسجد، ثم استيقظنا، ثم رقدنا، ثم استيقظنا، ثم خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم قال: " ليس احد من اهل الارض الليلة، ينتظر الصلاة غيركم ".وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي نَافِعٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، شُغِلَ عَنْهَا لَيْلَةً فَأَخَّرَهَا، حَتَّى رَقَدْنَا فِي الْمَسْجِدِ، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ رَقَدْنَا، ثُمَّ اسْتَيْقَظْنَا، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ قَالَ: " لَيْسَ أَحَدٌ مِنْ أَهْلِ الأَرْضِ اللَّيْلَةَ، يَنْتَظِرُ الصَّلَاةَ غَيْرُكُمْ ".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن عشاء کی نماز کے وقت کسی کام میں مشغول ہو گئے اور اس میں دیر کی یہاں تک کہ ہم سو گئے، مسجد میں اور پھر جاگے، پھر سو گئے پھر جاگے پھر ہماری طرف رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور فرمایا: ”زمین والوں سے کوئی بھی آج کی رات اس نماز کے انتظار میں نہیں ہے سوائے تمہارے۔“
وحدثني ابو بكر بن نافع العبدي ، حدثنا بهز بن اسد العمي ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، انهم سالوا انسا ، عن خاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: اخر رسول الله صلى الله عليه وسلم العشاء، ذات ليلة إلى شطر الليل، او كاد يذهب شطر الليل، ثم جاء، فقال: " إن الناس قد صلوا وناموا، وإنكم لم تزالوا في صلاة، ما انتظرتم الصلاة "، قال انس: كاني انظر إلى وبيص خاتمه من فضة، ورفع إصبعه اليسرى بالخنصر.وحَدَّثَنِي أَبُو بَكْرِ بْنُ نَافِعٍ الْعَبْدِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ الْعَمِّيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، أَنَّهُمْ سَأَلُوا أَنَسًا ، عَنْ خَاتَمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَخَّرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْعِشَاءَ، ذَاتَ لَيْلَةٍ إِلَى شَطْرِ اللَّيْلِ، أَوْ كَادَ يَذْهَبُ شَطْرُ اللَّيْلِ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: " إِنَّ النَّاسَ قَدْ صَلَّوْا وَنَامُوا، وَإِنَّكُمْ لَمْ تَزَالُوا فِي صَلَاةٍ، مَا انْتَظَرْتُمُ الصَّلَاةَ "، قَالَ أَنَسٌ: كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى وَبِيصِ خَاتَمِهِ مِنْ فِضَّةٍ، وَرَفَعَ إِصْبَعَهُ الْيُسْرَى بِالْخِنْصِرِ.
ثابت رحمہ اللہ نے کہا: لوگوں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ ایک رات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیر کی عشاء میں نصف شب تک یا نصف شب کے قریب پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ کر سو رہے اور تم جب تک نماز کے منتظر ہو گویا نماز میں ہو۔“(یعنی ثواب کی وجہ سے) پھر سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: گویا میں اب دیکھتا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی چمک جو چاندی کی تھی اور انہوں نے بائیں ہاتھ کی چھنگلیا سے اشارہ کیا (یعنی انگوٹھی اسی انگلی میں تھی)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نے ایک شب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہاں تک انتظار کیا کہ آدھی رات کے قریب ہو گئی پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور نماز ادا کی اور ہماری طرف متوجہ ہوئے گویا کہ میں اب دیکھ رہا ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی انگوٹھی کی چمک کو اور وہ چاندی کی تھی۔
قرۃ سے بھی اس سند کے ساتھ بھی مذکورہ روایت آئی ہے اور اس میں یہ لفظ نہیں «ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا بِوَجْهِهِ» کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہماری طرف متوجہ ہوئے۔
وحدثنا ابو عامر الاشعري ، وابو كريب ، قالا: حدثنا ابو اسامة ، عن بريد ، عن ابي بردة ، عن ابي موسى ، قال: كنت انا واصحابي الذين قدموا معي في السفينة، نزولا في بقيع بطحان، ورسول الله صلى الله عليه وسلم بالمدينة، فكان يتناوب رسول الله صلى الله عليه وسلم عند صلاة العشاء، كل ليلة نفر منهم، قال ابو موسى: فوافقنا رسول الله صلى الله عليه وسلم انا واصحابي، وله بعض الشغل في امره، حتى اعتم بالصلاة، حتى ابهار الليل، ثم خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى بهم، فلما قضى صلاته، قال لمن حضره على رسلكم: " اعلمكم وابشروا، ان من نعمة الله عليكم، انه ليس من الناس احد يصلي هذه الساعة غيركم "، او قال: ما صلى هذه الساعة احد غيركم، لا ندري اي الكلمتين، قال: قال ابو موسى: فرجعنا فرحين بما سمعنا من رسول الله صلى الله عليه وسلم.وحَدَّثَنَا أَبُو عَامِرٍ الأَشْعَرِيُّ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ بُرَيْدٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ ، عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: كُنْتُ أَنَا وَأَصْحَابِي الَّذِينَ قَدِمُوا مَعِي فِي السَّفِينَةِ، نُزُولًا فِي بَقِيعِ بُطْحَانَ، وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْمَدِينَةِ، فَكَانَ يَتَنَاوَبُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ صَلَاةِ الْعِشَاءِ، كُلَّ لَيْلَةٍ نَفَرٌ مِنْهُمْ، قَالَ أَبُو مُوسَى: فَوَافَقْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَا وَأَصْحَابِي، وَلَهُ بَعْضُ الشُّغْلِ فِي أَمْرِهِ، حَتَّى أَعْتَمَ بِالصَّلَاةِ، حَتَّى ابْهَارَّ اللَّيْلُ، ثُمَّ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَصَلَّى بِهِمْ، فَلَمَّا قَضَى صَلَاتَهُ، قَالَ لِمَنْ حَضَرَهُ عَلَى رِسْلِكُمْ: " أُعْلِمُكُمْ وَأَبْشِرُوا، أَنَّ مِنْ نِعْمَةِ اللَّهِ عَلَيْكُمْ، أَنَّهُ لَيْسَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ يُصَلِّي هَذِهِ السَّاعَةَ غَيْرُكُمْ "، أَوَ قَالَ: مَا صَلَّى هَذِهِ السَّاعَةَ أَحَدٌ غَيْرُكُمْ، لَا نَدْرِي أَيَّ الْكَلِمَتَيْنِ، قَالَ: قَالَ أَبُو مُوسَى: فَرَجَعْنَا فَرِحِينَ بِمَا سَمِعْنَا مِنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
سیدنا ابوموسٰی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں اور میرے رفیق جو کشتی میں آئے تھے یہ سب بقیع کی کنکریلی زمین میں اترے ہوئے تھے۔ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ میں تھے اور ہم میں سے ایک جماعت عشاء کے وقت ہر روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں باری باری سے آتی تھی۔ سو ایک دن میں چند ساتھیوں کے ساتھ حاضر خدمت ہوا اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کچھ کام تھا کہ اس میں مشغول تھے۔ یہاں تک کہ نماز میں دیر ہوئی اور رات نصف کے قریب ہو گئی۔ پھر رسول صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور سب کے ساتھ نماز پڑھی۔ پھر جب فارغ ہوئے تو حاضرین سے فرمایا: ”ذرا ٹھہرو میں تم کو خبر دیتا ہوں اور تم کو بشارت ہو کہ تمہارے اوپر اللہ کا احسان یہ تھا کہ اس وقت تمہارے سوا کوئی آدمی نماز نہیں پڑھتا یا فرمایا کہ ”اس وقت تمہارے سوا کسی نے نماز نہیں پڑھی۔“ میں نہیں جانتا ان دونوں میں سے کون سی بات کہی۔ سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کے سننے کے سبب خوشی خوشی واپس پھرے۔
وحدثنا محمد بن رافع ، حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، قال: قلت لعطاء : اي حين احب إليك ان اصلي العشاء، التي يقولها الناس العتمة إماما وخلوا؟ قال: سمعت ابن عباس ، يقول: اعتم نبي الله صلى الله عليه وسلم ذات ليلة العشاء، قال: حتى رقد ناس، واستيقظوا، ورقدوا، واستيقظوا، فقام عمر بن الخطاب، فقال: الصلاة، فقال ابن عباس: فخرج نبي الله صلى الله عليه وسلم، كاني انظر إليه الآن، يقطر راسه ماء، واضعا يده على شق راسه، قال: " لولا ان يشق على امتي، لامرتهم ان يصلوها "، كذلك قال: فاستثبت عطاء، كيف وضع النبي صلى الله عليه وسلم يده على راسه، كما انباه ابن عباس، فبدد لي عطاء بين اصابعه شيئا من تبديد، ثم وضع اطراف اصابعه على قرن الراس، ثم صبها يمرها كذلك على الراس، حتى مست إبهامه طرف الاذن مما يلي الوجه، ثم على الصدغ، وناحية اللحية لا يقصر، ولا يبطش بشيء إلا كذلك، قلت لعطاء: كم ذكر لك اخرها النبي صلى الله عليه وسلم ليلتئذ؟ قال: لا ادري، قال عطاء: احب إلي ان اصليها إماما، وخلوا مؤخرة، كما صلاها النبي صلى الله عليه وسلم، ليلتئذ، فإن شق عليك ذلك، خلوا، او على الناس في الجماعة، وانت إمامهم، فصلها وسطا لا معجلة، ولا مؤخرة.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، قَالَ: قُلْتُ لِعَطَاءٍ : أَيُّ حِينٍ أَحَبُّ إِلَيْكَ أَنْ أُصَلِّيَ الْعِشَاءَ، الَّتِي يَقُولُهَا النَّاسُ الْعَتَمَةَ إِمَامًا وَخِلْوًا؟ قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ ، يَقُولُ: أَعْتَمَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ لَيْلَةٍ الْعِشَاءَ، قَالَ: حَتَّى رَقَدَ نَاسٌ، وَاسْتَيْقَظُوا، وَرَقَدُوا، وَاسْتَيْقَظُوا، فَقَامَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: الصَّلَاةَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَخَرَجَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ الآنَ، يَقْطُرُ رَأْسُهُ مَاءً، وَاضِعًا يَدَهُ عَلَى شِقِّ رَأْسِهِ، قَالَ: " لَوْلَا أَنْ يَشُقَّ عَلَى أُمَّتِي، لَأَمَرْتُهُمْ أَنْ يُصَلُّوهَا "، كَذَلِكَ قَالَ: فَاسْتَثْبَتُّ عَطَاءً، كَيْفَ وَضَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدَهُ عَلَى رَأْسِهِ، كَمَا أَنْبَأَهُ ابْنُ عَبَّاسٍ، فَبَدَّدَ لِي عَطَاءٌ بَيْنَ أَصَابِعِهِ شَيْئًا مِنْ تَبْدِيدٍ، ثُمَّ وَضَعَ أَطْرَافَ أَصَابِعِهِ عَلَى قَرْنِ الرَّأْسِ، ثُمَّ صَبَّهَا يُمِرُّهَا كَذَلِكَ عَلَى الرَّأْسِ، حَتَّى مَسَّتْ إِبْهَامُهُ طَرَفَ الأُذُنِ مِمَّا يَلِي الْوَجْهَ، ثُمَّ عَلَى الصُّدْغِ، وَنَاحِيَةِ اللِّحْيَةِ لَا يُقَصِّرُ، وَلَا يَبْطِشُ بِشَيْءٍ إِلَّا كَذَلِكَ، قُلْتُ لِعَطَاءٍ: كَمْ ذُكِرَ لَكَ أَخَّرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَيْلَتَئِذٍ؟ قَالَ: لَا أَدْرِي، قَالَ عَطَاءٌ: أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ أُصَلِّيَهَا إِمَامًا، وَخِلْوًا مُؤَخَّرَةً، كَمَا صَلَّاهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَيْلَتَئِذٍ، فَإِنْ شَقَّ عَلَيْكَ ذَلِكَ، خِلْوًا، أَوْ عَلَى النَّاسِ فِي الْجَمَاعَةِ، وَأَنْتَ إِمَامُهُمْ، فَصَلِّهَا وَسَطًا لَا مُعَجَّلَةً، وَلَا مُؤَخَّرَةً.
ابن جریج نے کہا: میں نے عطاء سے کہا کہ تمہارے نزدیک کون سا وقت بہتر ہے کہ میں اس وقت عشاء کی نماز پڑھا کروں جس کو لوگ عتمہ کہتے ہیں خواہ امام ہو کر خواہ تنہا؟ سو عطاء نے کہا کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ فرماتے تھے کہ ایک رات نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء کی نماز میں دیر کی یہاں تک کہ لوگ سو گئے پھر جاگے اور پھر سو گئے اور پھر جاگے۔ پھر سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نماز (یعنی پکارا کہ نماز کا وقت ہو گیا) پھر عطاء نے کہا کہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ نکلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گویا کہ میں اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہا ہوں کہ سر مبارک سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پانی ٹپک رہا تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے سر کے اوپر ہاتھ رکھے ہوئے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر میری امت پر بار نہ ہوتا تو میں انہیں حکم کرتا کہ وہ اس نماز کو اسی وقت پڑھا کرے۔“ ابن جریج نے کہا کہ میں نے عطاء سے کیفیت پوچھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سر پر ہاتھ کیسے رکھا تھا اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے آپ کو کس طرح بتایا تھا۔ سو عطاء نے اپنی انگلیاں تھوڑی سی کھولیں۔ پھر اپنی انگلیوں کے کنارے اپنے سر پر رکھے پھر ان کو سر سے جھکایا اور پھیرا یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انگوٹھا کان کے اس کنارے کی طرف پہنچا جو کنارہ منہ کی جانب ہے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا انگوٹھا کنپٹی تک اور داڑھی کے کنارے تک ہاتھ کسی چیز پر نہ پرتا تھا اور نہ کسی کو پکڑتا تھا مگر ایسا ہی میں نے عطاء سے کہا کہ انہوں نے یہ بھی ذکر کیا کہ انہوں نے اس رات میں عشاء میں کتنی دیر کی۔ کہا: میں نہیں جانتا پھر عطاء نے کہا کہ میں دوست رکھتا ہوں کہ میں اسی وقت نماز پڑھا کروں۔ امام ہو کر یا تنہا دیر کر کے، جیسے ادا کیا اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس رات میں اور اگر تم پر بار گزرے یا لوگوں پر بار ہو اور تم ان کے امام ہو تو اس کو متوسط وقت میں ادا کیا کرو، نہ جلدی، نہ دیر کر کے۔
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمہاری مثل نماز پڑھا کرتے تھے اور عشاء کی نماز میں تمہاری بہ نسبت ذرا دیر کیا کرتے تھے اور نماز ہلکی پڑھتے تھے اور ابوکامل کی روایت میں تخفیف کا لفظ ہے۔ اس کے معنی بھی وہی ہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا میں نے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ آپ فرماتے تھے: ”کہ تم پر گنوار لوگ غالب نہ ہوں کہ مٹا دیں تمہاری نماز عشاء کے نام کو اس لئے کہ وہ اونٹوں کے دودھ دوہنے میں دیر کیا کر تے ہیں۔“(یعنی اسی وجہ سے وہ عشاء کو عتمہ کہتے ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم پر گنوار لوگ عشاء کی نماز کے نام پر غالب نہ ہوں، پس بے شک وہ اللہ کی کتاب میں عشاء ہے۔ اس لئے کہ وہ اونٹنیوں کے دوہنے میں دیر کرتے ہیں۔“