الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 61. باب وَعِيدِ مَنِ اقْتَطَعَ حَقَّ مُسْلِمٍ بِيَمِينٍ فَاجِرَةٍ بِالنَّارِ: باب: جھوٹی قسم کھاکر کسی مسلمان کا حق مارنے پر جہنم کی وعید۔
سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ (ایاس بن ثعلبہ انصاری حارثی یا عبداللہ بن ثعلبہ یا ثعلبہ بن عبداللہ) سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی مسلمان کا حق (مال ہو یا غیر مال جیسے مردے کی کھال گوبر وغیرہ یا اور قسم کے حقوق جیسے حق شفعہ، حق شرب، حد قذف، بیوی کے پاس رہنے کی باری) مار لے، قسم کھا کر تو اللہ نے اس کیلئے واجب کر دیا جہنم کو اور حرام کر دیا اس پر جنت کو۔“ ایک شخص بولا: یا رسول اللہ! اگر وہ ذرا سی چیز ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ ایک ٹہنی ہو پیلو کی۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه النسائي في ((أداب القضاء)) في قليل المال وكثيره برقم 246/8 - وابن ماجه في ((سننه)) في الاحكام، باب: من حلف علي يمين فاجرة ليقتطع بها مالا برقم (2324) انظر ((التحفة)) برقم (1744)»
عبداللہ بن کعب کی سند سے بھی روایت آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (351)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص قسم کھائے حاکم کے حکم سے ایک مسلمان کا مال مارنے کیلئے اور وہ جھوٹا ہو تو ملے گا اللہ سے اور وہ اس پر غصے ہو گا۔“ جب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی تو سیدنا اشعث بن قیس رضی اللہ عنہ آئے اور کہا: ابوعبدالرحمٰن! (کنیت ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی) کیا حدیث بیان کرتے ہیں تم سے؟ لوگوں نے کہا: ایسی ایسی حدیث۔ سیدنا اشعث رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ سچ کہتے ہیں، یہ میرے متعلق اتری، میری اور ایک شخص کی شرکت میں زمین تھی یمن میں، تو جھگڑا ہوا مجھ سے اور اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تیرے پاس گواہ ہے ہیں۔“ میں نے عرض کیا: نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا تو پھر اس سے قسم لے لے۔“ میں نے کہا: وہ تو قسم کھا لے گا، تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجبور ہو کر قسم کھا لے مسلمان کے مال مارنے کے لئے اور وہ جھوٹا ہو تو وہ اللہ سے ملے اور وہ غصے ہو گا اس پر۔“ پھر یہ آیت اتری «إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا» (آل عمران:77) اخیر تک۔ یعنی ”جو لوگ اللہ کا عہد اور قسم دے کر ذرا سا مال خریدتے ہیں ان کو آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور اللہ ان سے بات نہ کرے گا اور ان کو پاک نہ کرے گا اور ان کی طرف نہ دیکھے گا اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔““
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في المساقاة، باب: الخصومة في البئر والقضاء فيها برقم (2229) وفى الرهن، باب: اذا اختلف الراهن والمرتهن ونحوه، فالبينة على المدعى واليمين على المدعى عليه برقم (2380) وفى الشهادات، باب: سوال الحاكم المدعى، هل لك بينة قبل اليمين برقم (2523) وفى باب: قول الله تعالى: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا ﴾ برقم (2531) مختصراً وأخرجه ايضا في كتاب الخصومات باب كلام الخصوم بعضهم مع بعض برقم (2285) وأخرجه ايضا فى كتاب التفسير: آل عمران, باب: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ ﴾ برقم (4275) وأخرجه ايضا في كتاب الايمان والنذور، باب: عهد الله عز وجل برقم (6283) وأخرجه ايضا في الكتاب نفسه، باب: قول تعالى: ﴿ إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا أُولَٰئِكَ لَا خَلَاقَ لَهُمْ فِي الْآخِرَةِ.... الاية ﴾ برقم (6299) وأخرجه فى الاحكام، باب: الحكم في البئر ونحوها برقم (6761) وفي التوحيد، باب: قوله تعالى ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (7007) وابوداؤد في ((سننه)) في الايمان والنذور، باب: فيمن حلف يمينا ليقطع بها مالا لاحد برقم (3243) والترمذی فی ((جامعه)) في البيوع، باب: ما جاء في اليمين الفاجرة يقتطع به مال المسلم۔ برقم (1269) وقال: حدیث ابن مسعود حدیث حسن صحيح - وأخرجه ايضا في التفسير، باب: ومن سورة آل عمران، وقال: حسن صحيح برقم (2996) وابن ماجه في ((سننه)) في الاحكام، باب: من حلف على يمين فاجرة ليقتطع بها مالا مختصراً برقم (2323) انظر ((التحفة)) برقم (158 و 9244)»
فرمایا سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے، جو شخص قسم کھائے ایک مال مارنے کیلئے اور وہ جھوٹا ہو اس میں تو اللہ جل جلالہ سے ملے گا غصے کی حالت میں (یعنی اللہ اس پر غصے ہو گا) پھر بیان کیا اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔ اس میں یوں ہے کہ میرے اور ایک شخص کے بیچ میں تکرار تھی۔ ایک کنویں میں ہم دونوں جھگڑا لے گئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے واسطے دو گواہ ہیں یا اس کی قسم ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (353)»
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”جو شخص قسم کھائے مسلمان کے مال پر ناحق، تو ملے گا اللہ سے اور وہ اس پر غصے ہو گا۔“ سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی تصدیق میں یہ آیت پڑھی: «إِنَّ الَّذِينَ يَشْتَرُونَ بِعَهْدِ اللَّهِ وَأَيْمَانِهِمْ ثَمَنًا قَلِيلًا» اخیر تک۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (7007) انظر ((التحفة)) برقم (9238)»
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص حضر موت (ایک ملک کا نام عرب میں) کا اور ایک شخص کندہ کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔ حضر موت والے نے کہا: یا رسول اللہ! اس شخص نے میری زمین دبا لی ہے جو میرے باپ کی تھی۔ کندہ والے نے کہا: وہ میری زمین ہے میرے قبضہ میں ہے۔ میں اس میں کھیتی باڑی کرتا ہوں اس کا کچھ حق نہیں اس میں۔ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر موت والے سے کہا: ”تیرے پاس گواہ ہیں؟“ وہ بولا: نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو اس سے قسم لے“ وہ بولا: یا رسول اللہ! وہ تو فاجر ہے، قسم کھانے میں اس کو باک نہیں اور وہ پرہیز نہیں کرتا کسی بات سے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرا اب کچھ بس اس پر نہیں چلتا سوا قسم کے۔“ پھر وہ چلا قسم کھانے کو۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب اس نے پیٹھ موڑی: ”دیکھو اگر اس نے قسم کھائی دوسرے کا مال اڑا لینے کی ناحق، تو وہ اللہ سے ملے گا اور اللہ اس کی طرف سے منہ پھیر لے گا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في الايمان والنذور، باب: التغليظ في الايمان الفاجرة برقم (3245) وفي الاقضية، باب: الرجل يحلف على علمه فيما غاب عنه برقم (3623) والنسائي في ((جامعه)) في الاحکام، باب: ما جاء فى ان البينة على المدعى واليمين على المدعى عليه۔ وقال: حديث وائل بن حجر۔ وقال: حسن صحيح - برقم (1340) انظر ((التحفة)) برقم (11768)»
سیدنا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس تھا۔ اتنے میں دو شخص آئے لڑتے ہوئے ایک زمین کے لئے۔ ایک بولا: اس نے میری زمین چھین لی ہے جاہلیت کے زمانے میں اور وہ امراء القیس بن عباس کندی تھا اور اس کا حریف ربیعہ بن عبدان تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے پاس گواہ ہیں۔“ وہ بولا نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو پھر اس پر قسم ہے۔“ وہ بولا: یا رسول اللہ! تب تو وہ میرا مال اڑا لے گا (قسم کھا کر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بس یہی ہو سکتا ہے تیرے لئے“۔ جب وہ اٹھا قسم کھانے کو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص کسی کی زمین ظلم سے مارے گا تو اللہ اس پر غصے ہو گا جب وہ اس سے ملے۔“ اسحاق کی روایت میں ربیعہ بن عیدان ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (356)»
|