سماک نے علقمہ بن وائل سے، انہوں نے اپنے والد (حضرت وائل بن حجر رضی اللہ عنہ) سے روایت کی، انہوں نے کہا: ایک آدمی حضر موت سے اور ایک کندہ سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا۔حضرمی (حضر موت کے باشندے) نے کہا: اے اللہ کے رسول! یہ میری زمین پر قبضہ کیے بیٹھا ہے جومیرے باپ کی تھی۔ اور کندی نے کہا: یہ میری زمین ہے، میرے قبضے میں ہے، میں اسے کاشت کرتا ہوں، اس کا اس (زمین) میں کوئی حق نہیں۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے کہا: ”کیا تمہاری کوئی دلیل (گواہی وغیرہ) ہے؟“ اس نے کہا: نہیں۔ آپ نے فرمایا: ” پھر تمہارے لیے اس کی قسم ہے۔“ اس نے کہا: اے اللہ کے رسول! بلاشبہ یہ آدمی بدکردار ہے، اسے کوئی پرواہ نہیں کہ کس چیز پر قسم کھاتا ہے او ریہ کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپ نے فرمایا: ”تمہیں اس سے اس (قسم) کے سوا کچھ نہیں مل سکتا۔“ وہ قسم کھانے چلا اور جب اس نے پیٹھ پھیری تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بات یہ ہے کہ اگر اس نے ظلم اور زیادتی سے اس شخص کا مال کھانے کے لیے قسم کھائی تو بلاشبہ یہ شخص اللہ سے اس حالت میں ملے گا کہ اللہ نے اس سے اپنا رخ پھیر لیا ہو گا۔“
علقمہ بن وائلؒ اپنے باپ سے روایت نقل کرتے ہیں: کہ ایک حضر موت کا آدمی اور ایک کندہ کا آدمی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے حضرمی نے کہا: ”اے اللہ کے رسولؐ! یہ میری، میرے باپ کی طرف سے زمین پر قبضہ کر بیٹھا ہے۔ تو کندی نے کہا: یہ زمین میری ہے، میرے قبضہ میں ہے، میں اسے کاشت کرتا ہوں، اس کا اس میں کچھ حق نہیں ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرمی سے کہا: ”کیا تیرے پاس گواہ ہے؟“ اس نے کہا نہیں! آپؐ نے فرمایا: ”تم اس سے قسم لے سکتے ہو؟“ اس نے جواب دیا: اے اللہ کے رسول! یہ آدمی بدکار ہے، اسے کوئی پروانہیں کس قسم کی قسم اٹھاتا ہے، کسی چیز سے پرہیز نہیں کرتا۔ آپؐ نے فرمایا: ”تم اس سے اس کے سوا کچھ نہیں لے سکتے۔“ وہ قسم اٹھانے لگا، تو جب قسم کے لیے مڑا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں اللہ کی قسم! اگر اس نے ظلماً اس کا مال کھانے کے لیے قسم اٹھائی، تو اللہ سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر ناراض ہو گا۔“