الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 46. باب بَيَانِ غِلَظِ تَحْرِيمِ إِسْبَالِ الإِزَارِ وَالْمَنِّ بِالْعَطِيَّةِ وَتَنْفِيقِ السِّلْعَةِ بِالْحَلِفِ وَبَيَانِ الثَّلاَثَةِ الَّذِينَ لاَ يُكَلِّمُهُمُ اللَّهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ وَلاَ يَنْظُرُ إِلَيْهِمْ وَلاَ يُزَكِّيهِمْ وَلَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ: باب: ازار ٹخنوں سے نیچے لٹکانے، احسان جتلانے، اور جھوٹی قسم کھا کر سودا بیچنے کے سخت حرمت کا بیان، اور ان تین قسم کے لوگوں کا بیان جن سے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن بات نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور نہ ان کو پاک کرے گا بلکہ ان کے لیے دردناک عذاب ہو گا۔
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بات نہ کرے گا قیامت کے دن، نہ ان کی طرف دیکھے گا (رحمت کی نگاہ سے) نہ ان کو پاک کرے گا (گناہوں سے) اور ان کو دکھ کا عذاب ہو گا۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہ فرمایا تو سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: برباد ہو گئے، وہ لوگ اور نقصان میں پڑے، وہ کون ہیں یا رسول اللہ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک تو لٹکانے والا ازار کا، دوسرے احسان کر کے اس کو جتانے والا، تیسرے جھوٹی قسم کھا کر اپنے مال کی نکاسی کرنے والا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في اللباس، باب: ما جاء في اسبال الازار برقم (4087) والترمذي في ((جامعه)) في البيوع، باب: ما جاء فيمن حلف على سلعة كاذبة - وقال: حديث ابی ذر حدیث حسن صحيح برقم (1211) وأخرجه النسائي في ((المجتبى)) 81/5 في الزكاة، باب: المنان بما اعطى وفي 240/7-247 في البيوع، باب: المنفق السلعة بالحلف الكاذب۔ وفي 208/8 في الزينة، باب: اسبال الزار برقم (5348) - وابن ماجه في ((سننه)) في التجارات، باب: ما جاء في كراهية الايمان في الشراء والبيع برقم (2208) انظر ((التحفة)) برقم (11909)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ تعالیٰ بات نہ کرے گا قیامت کے روز، ایک احسان جتانے والا جو دے کر احسان جتا دے، دوسرے اپنا مال چلانے والا جھوٹی قسم کھا کر، تیسرے ازار لٹکانے والا۔ “
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (289)»
اس روایت میں ہے کہ ” تین آدمیوں سے اللہ بات نہ کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، نہ ان کو پاک کرے گا اور ان کو دکھ کا عذاب ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (289)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمیوں سے اللہ بات نہ کرے گا قیامت کے روز، نہ ان کو پاک کرے گا، نہ ان کی طرف دیکھے گا، اور ان کو دکھ کا عذاب ہے۔ ایک تو بوڑھا زنا کرنے والا، دوسرے بادشاہ جھوٹا، تیسرے محتاج مغرور۔ “
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (13406)»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ” تین شخص ہیں جن سے اللہ قیامت میں نہ بولے گا، نہ ان کو دیکھے گا، نہ ان کو گناہ سے پاک کرے گا اور ان کے لیے بڑے درد کا عذاب ہے۔ ایک تو وہ جو جنگل میں حاجت سے زیادہ پانی رکھتا ہو پھر مسافر کو اس پانی سے روکے، دوسرا وہ جس نے کسی کے ہاتھ کوئی مال بیچا عصر کے بعد اور اللہ کی قسم کھائی کہ میں نے اتنے کو مول لیا ہے اور خریدار نے سچ سمجھا اس کی بات کو، حالانکہ اتنے کو اس نے نہیں لیا تھا (یعنی جھوٹی قسم کھائی اور عصر کے بعد کی تخصیص اس وجہ سے ہے کہ وہ متبرک وقت ہے فرشتوں کے جمع ہونے کا یا وہ اصل وقت ہے، خرید اور فروخت کا) تیسرا وہ جس نے بیعت کی امام سے دنیا کی طمع سے پھر اگر امام نے اس کو کچھ دیا دنیا کا مال تو اس نے اپنی بیعت پوری کی اور جو نہ دیا تو پوری نہ کی، (تو اس شخص نے دھوکا دیا مسلمانوں کو بیعت کر کے کہ وہ اس کے عہد کے بھروسے رہے اور یہ دنیا کی فکر میں تھا عہد کی پروا نہ تھی)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابن ماجه في ((سننه)) في التجارات باب: ما جاء في كراهية الايمان في الشراء والبيع برقم (2207) وفي الجهاد، باب: الوفاء بالبيعة برقم (2870) انظر ((التحفة)) برقم (12522)»
اعمش کی سند میں بھی پہلی روایت ہی کی طرح الفاظ ہیں مگر جریر کی حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ ”ایک وہ شخص جو اپنے سودے کا بھاؤ دوسرے شخص سے کرتا ہے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (12413)»
یہ روایت بھی ایسی ہے، اس میں یہ ہے: ” جس نے قسم کھائی عصر کی نماز کے بعد ایک مسلمان کے مال پر پھر مار لیا اس کو۔ “ (یعنی جھوٹی قسم کھا کر)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((المساقاة)) الشرب، باب: من رای ان صاحب الحوض والقرية أحق بمائه برقم (2240) وفي التوحيد، باب: قول الله تعالي: ﴿ وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ نَّاضِرَةٌ، إِلَىٰ رَبِّهَا نَاظِرَةٌ ﴾ برقم (7008) انظر ((التحفة)) برقم (12855)»
|