تفسیر القرآن الکریم

سورة عبس
أَنْ جَاءَهُ الْأَعْمَى[2]
اس لیے کہ اس کے پاس اندھا آیا۔[2]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 2) اَنْ جَآءَهُ الْاَعْمٰى: (اس لیے تیوری چڑھائی) کہ اس کے پاس نابینا آیا، حالانکہ نابینا تو زیادہ لطف و کرم کا مستحق تھا۔ پھر اگر اس کے دین کی بات پوچھنے سے کسی چودھری کے ساتھ کلام قطع ہوا ہے، جس کے اسلام لانے کی آپ کو امید تھی اور اس وجہ سے تیوری پڑی ہے تو اس میں اس کا کیا قصور؟ وہ تو نابینا ہے، اسے کیا پتا کہ آپ کس سے بات کر رہے ہیں؟