تفسیر القرآن الکریم

سورة القلم
وَلَا يَسْتَثْنُونَ[18]
اور وہ کوئی استثنا نہیں کر رہے تھے۔[18]
تفسیر القرآن الکریم
(آیت 18) وَ لَا يَسْتَثْنُوْنَ: اَلْاِسْتِثْنَاءُ کسی چیز کو عام حکم سے علیحدہ کرنا، ان شاء اللہ کہنا۔ آیت کے دو معنی ہیں، ایک یہ کہ انھیں اپنے منصوبے کی کامیابی کا اتنا یقین تھا کہ انھوں نے ان شاء اللہ بھی نہیں کہا اور وہ اللہ کی قدرت و مشیت کو بھی بھول گئے۔ دوسرا یہ کہ انھوں نے سارا پھل اتار لینے کی قسم کھائی۔ عام طور پر پھل چنتے وقت کچھ پھل مساکین کے لیے چھوڑ دیا جاتا ہے، لیکن انھوں نے اس کا استثنا بھی نہیں کیا۔