تفسیر احسن البیان

سورة الانعام
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ[31]
بیشک خسارے میں پڑے وہ لوگ جس نے اللہ سے ملنے کی تکذیب (جھٹلانا) کی، یہاں تک کہ جب وہ معین وقت ان پر دفعتًا آپہنچے گا، کہیں گے کہ ہائے افسوس ہماری کوتاہی پر جو اس کے بارے میں ہوئی، اور حالت ان کی یہ ہوگی کہ وہ اپنے بار اپنی پیٹھوں پر لادے ہونگے، خوب سن لو کہ بری ہوگی وہ شے جس کو وہ لادیں گے (1)[31]
تفسیر احسن البیان
31۔ 1 اللہ کی ملاقات کی تکذیب کرنے والے جس خسارے اور نامرادی سے دو چار ہوں گے اپنی کوتاہیوں پر جس طرح نادم ہوں گے اور برے اعمال کا جو بوجھ اپنے اوپر لادے ہوں گے آیت میں اس کا نقشہ کھینچا گیا ہے۔ فَرَّطْنَا فِیْھَا میں ضمیراَلسَّاعَۃُ کی طرف راجع ہے یعنی قیامت کی تیاری اور تصدیق کے معاملے میں جو کوتاہی ہم سے ہوئی یا الصَّفْقَۃُ (سودا) کی طرف راجع ہے جو اگرچہ عبارت میں موجود نہیں ہے لیکن سیاق اس پر دلالت کناں ہے اس لئے کہ نقصان سودے میں ہی ہوتا ہے اور مراد اس سودے سے وہ ہے جو ایمان کے بدلے کفر خرید کر انہوں نے کیا یعنی یہ سودا کر کے ہم نے سخت کوتاہی کی یا حیاۃ کی طرف راجع ہے یعنی ہم نے اپنی زندگی میں برائیوں اور کفر و شرک کا ارتکاب کرکے جو کو تاہیاں کیں۔ (فتح القدیر)