قرآن مجيد

سورة الانعام
قَدْ خَسِرَ الَّذِينَ كَذَّبُوا بِلِقَاءِ اللَّهِ حَتَّى إِذَا جَاءَتْهُمُ السَّاعَةُ بَغْتَةً قَالُوا يَا حَسْرَتَنَا عَلَى مَا فَرَّطْنَا فِيهَا وَهُمْ يَحْمِلُونَ أَوْزَارَهُمْ عَلَى ظُهُورِهِمْ أَلَا سَاءَ مَا يَزِرُونَ[31]
ا خسارے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے اللہ کی ملاقات کو جھٹلایا، یہاں تک کہ جب ان کے پاس قیامت اچانک آپہنچے گی کہیں گے ہائے ہمارا افسوس! اس پر جو ہم نے اس میں کوتاہی کی اور وہ اپنے بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائیں گے۔ سن لو! برا ہے جو وہ بوجھ اٹھائیں گے۔[31]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 31، 32،

پشیمانی مگر جہنم دیکھ کر! ٭٭

قیامت کو جھٹلانے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ جانے کے بعد انہیں ہو گا۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ، بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے۔ «فِيهَا» کی ضمیر کا مرجع ممکن ہے «الْحَيَاةِ» ہو اور ممکن ہے «الْأَعْمَالِ» ہو اور ممکن ہے «الدَّارُ الْآخِرَةُ» ہو، ” یہ اپنے گناہوں کے بوجھ سے لدے ہوئے ہوں گے، اپنی بد کرداریاں اپنے اوپر اٹھائے ہوئے ہوں گے “۔

آہ! کیا برا بوجھ ہے؟ ابو مرزوق رحمہ اللہ فرماتے ہیں کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک، خوفناک اور بدصورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی سخت بدبو آ رہی ہوگی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون ہے؟ وہ کہے گا خواب! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں؟

یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بدصورت کریہہ منظر اور تیز بدبو والا ہے تجھ سے زیادہ بدصورت کوئی بھی نہ ہوگا، وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا۔ سن تو دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے اس آیت کا کہ ” وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر لادے ہوئے ہوں گے “۔

حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی لاش کے قبر میں پہنچتے ہی ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بدصورت سخت بدبودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس والا یہ اسے دیکھتے ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بدصورت ہے بدبو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس نہایت متعفن ہے، یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون؟ یہ کہتا ہے تیرے عمل کا مجسمہ، اب یہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کیلئے عذابوں کے ساتھ ہی ایک عذاب ہوتا ہے جب قیامت کے دن یہ اپنی قبر سے چلے گا تو یہ کہے گا ٹھہر جاؤ دنیا میں تو نے میری سواری لی ہے اب میں تیری سواری لوں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے مارتا پیٹتا ذلت کے ساتھ جانوروں کی طرح ہنکاتا ہوا جہنم میں پہنچاتا ہے۔ یہی معنی ہیں اس آیت کے اس جملے کے ہیں۔‏‏‏‏

دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا، آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم، البتہ اللہ سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے؟