تفسیر احسن البیان

سورة الفتح
سَيَقُولُ لَكَ الْمُخَلَّفُونَ مِنَ الْأَعْرَابِ شَغَلَتْنَا أَمْوَالُنَا وَأَهْلُونَا فَاسْتَغْفِرْ لَنَا يَقُولُونَ بِأَلْسِنَتِهِمْ مَا لَيْسَ فِي قُلُوبِهِمْ قُلْ فَمَنْ يَمْلِكُ لَكُمْ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ بِكُمْ ضَرًّا أَوْ أَرَادَ بِكُمْ نَفْعًا بَلْ كَانَ اللَّهُ بِمَا تَعْمَلُونَ خَبِيرًا[11]
دہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے (1) یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے، (2) آپ جواب دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے (3) یا تمہیں کوئی نفع دینا (4) چاہے، بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے (5)۔[11]
تفسیر احسن البیان
11۔ 1 اس سے مدینے کے اطراف میں آباد قبیلے غفار مزینہ جہینہ اسلم اور وئل مراد ہیں جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب دیکھنے کے بعد جس کی تفصیل آگے آئے گی عمرے کے لیے مکہ جانے کی عام منادی کرا دی مذکورہ قبیلوں نے سوچا کہ موجودہ حالات تو مکہ جانے کے لیے ساز گار نہیں ہیں وہاں ابھی کافروں کا غلبہ ہے اور مسلمان کمزور ہیں نیز مسلمان عمرے کے لیے پورے طور پر ہتھیار بند ہو کر بھی نہیں جاسکتے اگر ایسے میں کافروں نے مسلمانوں کے ساتھ لڑنے کا فیصلہ کرلیا تو مسلمان خالی ہاتھ ان کا مقابلہ کس طرح کریں گے اس وقت مکہ جانے کا مطلب اپنے آپ کو ہلاکت میں ڈالنا ہے چناچہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرے کے لیے نہیں گئے اللہ تعالیٰ ان کی بابت فرما رہا ہے کہ یہ تجھ سے مشغو لیتوں کا عذر پیش کر کے طلب مغفرت کی التجائیں کریں گے۔ 11۔ 2 یعنی زبانوں پر تو یہ ہے کہ ہمارے پیچھے ہمارے گھروں کی اور بیوی بچوں کی نگرانی کرنے والا کوئی نہیں تھا اس لیے ہمیں خود ہی رکنا پڑا لیکن حقیقت میں ان کا پیچھے رہنا نفاق اور اندیشہ موت کی وجہ سے تھا 11۔ 3 یعنی اگر اللہ تمہارے مال ضائع کرنے اور تمہارے اہل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کرلے تو کیا تم سے کوئی اختیار رکھتا ہے کہ وہ اللہ کو ایسا نہ کرنے دے۔ 11۔ 4 یعنی تمہیں مدد پہنچانا اور تمہیں غنیمت سے نوازنا چاہے تو کوئی روک سکتا ہے یہ دراصل مذکورہ متخلفین پیچھے رہ جانے والوں کا رد ہے جنہوں نے یہ گمان کرلیا تھا کہ وہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نہیں گئے تو نقصان سے محفوظ اور منافع سے بہرہ ور ہوں گے حالانکہ نفع وضرر کا سارا اختیار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ 11۔ 5 یعنی تمہیں تمہارے عملوں کی پوری جزا دے گا۔