تفسیر احسن البیان

سورة آل عمران
ثُمَّ أَنْزَلَ عَلَيْكُمْ مِنْ بَعْدِ الْغَمِّ أَمَنَةً نُعَاسًا يَغْشَى طَائِفَةً مِنْكُمْ وَطَائِفَةٌ قَدْ أَهَمَّتْهُمْ أَنْفُسُهُمْ يَظُنُّونَ بِاللَّهِ غَيْرَ الْحَقِّ ظَنَّ الْجَاهِلِيَّةِ يَقُولُونَ هَلْ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ مِنْ شَيْءٍ قُلْ إِنَّ الْأَمْرَ كُلَّهُ لِلَّهِ يُخْفُونَ فِي أَنْفُسِهِمْ مَا لَا يُبْدُونَ لَكَ يَقُولُونَ لَوْ كَانَ لَنَا مِنَ الْأَمْرِ شَيْءٌ مَا قُتِلْنَا هَاهُنَا قُلْ لَوْ كُنْتُمْ فِي بُيُوتِكُمْ لَبَرَزَ الَّذِينَ كُتِبَ عَلَيْهِمُ الْقَتْلُ إِلَى مَضَاجِعِهِمْ وَلِيَبْتَلِيَ اللَّهُ مَا فِي صُدُورِكُمْ وَلِيُمَحِّصَ مَا فِي قُلُوبِكُمْ وَاللَّهُ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ[154]
پھر اس نے اس غم کے بعد تم پر امن نازل فرمایا اور تم میں سے ایک جماعت کو امن کی نیند آنے لگی (1) ہاں کچھ وہ لوگ بھی تھے کہ انہیں اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی (2) وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ناحق جہالت بھری بدگمانیاں کر رہے تھے (3) اور کہتے تھے کہ ہمیں بھی کسی چیز کا اختیار ہے (4) کہہ دیجئے کام کل کا کل اللہ کے اختیار میں ہے (5) یہ لوگ اپنے دلوں کے بھید آپ کو نہیں بتاتے (6) کہتے ہیں کہ ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ کئے جاتے (7) آپ کہہ دیجئے گو تم اپنے گھروں میں بھی ہوتے پھر بھی جن کی قسمت میں قتل ہونا تھا وہ تو مقتل کی طرف چل کھڑے ہوتے (8) اللہ تعالیٰ کو تمہارے سینوں کے اندر کی چیز کا آزمانا اور جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اس کو پاک کرنا تھا (9) اور اللہ تعالیٰ سینوں کے بھید سے آگاہ ہے (10)۔[154]
تفسیر احسن البیان
154۔ 1 مذکورہ سراسیمگی کے بعد اللہ تعالیٰ نے پھر مسلمانوں پر اپنا فضل فرمایا اور میدان جنگ میں باقی رہ جانے والے مسلمانوں پر اونگھ مسلط کردی۔ یہ اونگھ اللہ کی طرف سے نصرت کی دلیل تھی۔ حضرت ابو طلحہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی ان لوگوں میں سے تھا جن پر احد کے دن اونگھ چھائی جا رہی تھی حتیٰ کہ میری تلوار کئی مرتبہ میرے ہاتھ سے گری میں اسے پکڑتا وہ پھر گر جاتی، پھر پکڑتا پھر گر جاتی (صحیح بخاری) نعاسا امنۃ سے بدل ہے۔ طائفہ واحد اور جمع دونوں کے لیے مستعمل ہے (فتح القدیر) 154۔ 2 اس سے مراد منافقین ہیں۔ ظاہر ہے کہ ایسے حالات میں ان کو اپنی جانوں کی فکر تھی۔ 154۔ 3 وہ یہ تھیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ باطل ہے، یہ جس دین کی دعوت دیتے ہیں، اس کا مستقبل مخدوش ہے، انہیں اللہ کی مدد ہی حاصل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 154۔ 4 یعنی کیا اب ہمارے لئے اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی فتح و نصرت کا امکان ہے؟ یا یہ کہ ہماری بھی کوئی بات چل سکتی ہے اور مانی جاسکتی ہے۔ 154۔ 5 تمہارے یا دشمن کے اختیار میں نہیں ہے، مدد بھی اسی کی طرف سے آئے گی اور کامیابی بھی اسی کے حکم سے ہوگی اور امر و نہی بھی اسی کا ہے۔ 154۔ 6 اپنے دلوں میں نفاق چھپائے ہوئے ہیں، ظاہر یہ کرتے ہیں، کہ رہنمائی کے طالب ہیں۔ 154۔ 7 یہ وہ آپس میں کہتے یا اپنے دل میں کہتے تھے۔ 154۔ 8 اللہ تعالیٰ نے فرمایا، اس قسم کی باتوں کا کیا فائدہ؟ موت تو ہر صورت میں آنی ہے اور اسی جگہ پر آنی ہے جہاں اللہ تعالیٰ کی طرف سے لکھ دی گئی۔ اگر تم گھروں میں بیٹھے ہوتے اور تمہاری موت کسی مقتل میں لکھی ہوتی تو تمہیں قضا ضرور وہاں کھینچ لے جاتی۔ 154۔ 9 یہ جو کچھ ہوا اس سے ایک مقصد یہ بھی تھا کہ تمہارے سینوں کے اندر جو کچھ ہے یعنی ایمان اسے آزمائے (تاکہ منافق الگ ہوجائیں) اور پھر تمہارے دلوں کو شیطانی وساوس سے پاک کر دے۔ 154۔ 10 یعنی اس کو تو علم ہے کہ مخلص مسلمان کون ہے اور نفاق کا لبادہ کس نے اوڑھ رکھا ہے؟ جہاد کی متعدد حکمتوں میں سے ایک حکمت یہ ہے کہ اس سے مومن اور منافق کھل کر سامنے آجاتے ہیں، جنہیں عام لوگ دیکھ اور پہچان لیتے ہیں۔