پھر اس غم کے بعد اس نے تم پر ایک امن نازل فرمایا، جو ایک اونگھ تھی، جو تم میں سے کچھ لوگوں پر چھا رہی تھی اور کچھ لوگ وہ تھے جنھیں ان کی جانوں نے فکر میں ڈال رکھا تھا، وہ اللہ کے بارے میں ناحق جاہلیت کا گمان کر رہے تھے، کہتے تھے کیا اس معاملے میں ہمارا بھی کوئی اختیار ہے؟ کہہ دے بے شک معاملہ سب کا سب اللہ کے اختیار میں ہے۔ وہ اپنے دلوں میں وہ بات چھپاتے تھے جو تیرے لیے ظاہر نہیں کرتے تھے۔ کہتے تھے اگر اس معاملے میں ہمارا کچھ اختیار ہوتا تو ہم یہاں قتل نہ کیے جاتے، کہہ دے اگر تم اپنے گھروں میں ہوتے تب بھی جن لوگوں پر قتل ہونا لکھا جا چکا تھا اپنے لیٹنے کی جگہوں کی طرف ضرور نکل آتے اور تاکہ اللہ اسے آزمالے جو تمھارے سینوں میں ہے اور تاکہ اسے خالص کر دے جو تمھارے دلوں میں ہے اور اللہ سینوں کی بات کو خوب جاننے والا ہے۔[154]
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں پر اس غم و رنج کے وقت جو احسان فرمایا تھا اس کا بیان ہو رہا ہے کہ اس نے ان پر اونگھ ڈال دی ہتھیار ہاتھ میں ہیں دشمن سامنے ہے لیکن دل میں اتنی تسکین ہے کہ آنکھیں اونگھ سے جھکی جا رہی ہیں جو امن و امان کا نشان ہے جیسے سورۃ الانفال میں بدر کے واقعہ میں ہے آیت «إِذْ يُغَشِّيكُمُ النُّعَاسَ أَمَنَةً مِّنْهُ» [8-الأنفال:11] یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے امن بصورت اونگھ نازل ہوئی۔اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے۔ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں لڑائی کے وقت ان کی اونگھ اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی طرف سے ہے اور نماز میں اونگھ کا آنا شیطانی حکمت ہے،
سیدنا ابو طلحہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ احد والے دن مجھے اس زور کی اونگھ آنے لگی کہ بار بار تلوار میرے ہاتھ سے چھوٹ گئی آپ فرماتے ہیں جب میں نے آنکھ اٹھا کر دیکھا تو تقریباً ہر شخص کو اسی حالت میں پایا، [صحیح بخاری:4068]
ہاں البتہ ایک جماعت وہ بھی تھی جن کے دلوں میں نفاق تھا یہ مارے خوف و دہشت کے ہلکان ہو رہے تھے اور ان کی بدگمانیاں اور برے خیال حد کو پہنچ گئے تھے۔ [سنن ترمذي:3008،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پس اہل ایمان،اہل یقین،اہل ثبات، اہل توکل اور اہل صدق تو یقین کرتے تھے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ضرور مدد کرے گا اور ان کی منہ مانگی مراد پوری ہو کر رہے گی لیکن اہل نفاق، اہل شک، بےیقین، ڈھلمل ایمان والوں کی عجب حالت تھی ان کی جان عذاب میں تھی وہ ہائے وائے کر رہے تھے اور ان کے دل میں طرح طرح کے وسواس پیدا ہو رہے تھے انہیں یقین کامل ہو گیا تھا کہ اب مرے، وہ جان چکے تھے کہ رسول اور مومن [ نعوذ باللہ ] اب بچ کر نہیں جائیں گے، اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں۔ فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے۔ کہ جہاں جیسا کہ آیت میں ہے کہ «بَلْ ظَنَنتُمْ أَن لَّن يَنقَلِبَ الرَّسُولُ وَالْمُؤْمِنُونَ إِلَىٰ أَهْلِيهِمْ أَبَدًا» [ 48-الفتح: 12 ] اب بچاؤ کی کوئی صورت نہیں، فی الواقع منافقوں کا یہی حال ہے کہ جہاں ذرا نیچا پانسہ دیکھا تو ناامیدی کی گھٹگھور گھٹاؤں نے انہیں گھیر لیا ان کے برخلاف ایماندار بد سے بد تر حالت میں بھی اللہ تعالیٰ سے نیک گمان رکھتا ہے۔
ان کے دلوں کے خیالات یہ تھے کہ اگر ہمارا کچھ بھی بس چلتا تو آج کی موت سے بچ جاتے اور چپکے چپکے یوں کہتے بھی تھے سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ اس سخت خوف کے وقت ہمیں تو اس قدر نیند آنے لگی کہ ہماری ٹھوڑیاں سینوں سے لگ گئیں میں نے اپنی اسی حالت میں معتب بن قشیر کے یہ الفاظ سنے کہ اگر ہمیں کچھ بھی اختیار ہوتا تو یہاں قتل نہ ہوتے [تفسیر ابن جریر الطبری:8093:حسن]
اللہ تعالیٰ انہیں فرماتا ہے کہ یہ تو اللہ تعالیٰ کے فیصلے ہیں مرنے کا وقت نہیں ٹلتا گو تم گھروں میں ہوتے لیکن پھر بھی جن پر یہاں کٹنا لکھا جا چکا ہوتا وہ گھروں کو چھوڑ کر نکل کھڑے ہوئے اور یہاں میدان میں آ کر ڈٹ گئے اور اللہ کا لکھا پورا اترا۔
یہ وقت اس لیے تھا کہ اللہ تعالیٰ تمہارے دلوں کے ارادوں اور تمہارے مخفی بھیدوں کو بے نقاب کردے، اس آزمائش سے بھلے اور برے نیک اور بد میں تمیز ہو گئی، اللہ تعالیٰ جو دلوں کے بھیدوں اور ارادوں سے پوری طرح واقف ہے اس نے اس ذرا سے واقعہ سے منافقوں کو بے نقاب کر دیا اور مسلمانوں کا بھی ظاہری امتحان ہو گیا،
اب سچے مسلمانوں کی لغزش کا بیان ہو رہا ہے جو انسانی کمزوری کی وجہ سے ان سے سرزد ہوئی فرماتا ہے شیطان نے یہ لغزش ان سے کرا دی دراصل یہ سب ان کے عمل کا نتیجہ تھا نہ یہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کرتے نہ ان کے قدم اکھڑتے، انہیں اللہ تعالیٰ معذور جانتا ہے اور ان سے اس نے درگزر فرما لیا اور ان کی اس خطا کو معاف کر دیا اللہ کا کام ہی درگزر کرنا بخشنا معاف فرمانا، حلم اور بربادی برتنا تحمل اور عفو کرنا ہے اس سے معلوم ہوا کہ عثمان وغیرہ کی اس لغزش کو اللہ تعالیٰ نے معاف فرما دیا۔
مسند احمد میں ہے کہ ولید بن عقبہ نے ایک مرتبہ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے کہا آخر تم امیر المؤمنین سیدنا عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے اس قدر کیوں بگڑے ہوئے ہو؟ انہوں نے کہا اس سے کہ دو کہ میں نے احد والے دن فرار نہیں کیا بدر کے غزوے میں غیر حاضر نہیں رہا اور نہ سنت عمر رضی اللہ عنہ ترک کی، ولید نے جا کر عثمان رضی اللہ عنہ سے یہ واقعہ بیان کیا تو آپ نے اس کے جواب میں فرمایا کہ قرآن کہہ رہا ہے «وَلَقَدْ عَفَا اللّٰهُ عَنْھُمْ» [3-آل عمران:155] یعنی احد والے دن کی اس لغزش سے اللہ تعالیٰ نے درگزر فرمایا پھر جس خطا کو اللہ نے معاف کر دیا اس پر عذر لانا کیا؟
بدر والے دن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی میری بیوی رقیہ کی تیمارداری میں مصروف تھا یہاں تک کہ وہ اسی بیماری میں فوت ہو گئیں چنانچہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مال غنیمت میں سے پور احصہ دیا اور ظاہر ہے کہ حصہ انہیں ملتا ہے جو موجود ہیں پس حکماً میری موجودگی ثابت ہوا ہے، رہی سنت عمر رضی اللہ عنہ اس کی طاقت نہ مجھ میں ہے نہ عبدالرحمٰن میں، جاؤ انہیں یہ جواب بھی پہنچا دو۔ [مسند احمد:68/1:حسن]