تفسیر احسن البیان

سورة يوسف
فَلَمَّا دَخَلُوا عَلَيْهِ قَالُوا يَا أَيُّهَا الْعَزِيزُ مَسَّنَا وَأَهْلَنَا الضُّرُّ وَجِئْنَا بِبِضَاعَةٍ مُزْجَاةٍ فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا إِنَّ اللَّهَ يَجْزِي الْمُتَصَدِّقِينَ[88]
پھر جب یہ لوگ یوسف ؑ کے پاس پہنچے (1) تو کہنے لگے کہ اے عزیز ! ہم کو اور ہمارے خاندان کو دکھ پہنچا ہے (2) ہم حقیر پونجی لائے ہیں پس آپ ہمیں پورے غلے کا ناپ دیجئے (3) اور ہم پر خیرات کیجئے (4) اللہ تعالیٰ خیرات کرنے والوں کو بدلہ دیتا ہے۔[88]
تفسیر احسن البیان
88۔ 1 یہ تیسری مرتبہ ان کا مصر جانا ہے۔ 88۔ 2 یعنی غلہ لینے کے لئے ہم جو ثمن (قیمت) لے کر آئے ہیں، وہ نہایت قلیل اور حقیر ہے۔ 88۔ 3 یعنی ہماری حقیر پونجی کو نہ دیکھیں، ہمیں اس کے بدلے میں پورا ناپ دیں۔ 88۔ 4 یعنی ہماری حقیر پونجی قبول کر کے ہم پر احسان اور خیرات کریں۔ اور بعض مفسرین نے اس کے معنی کیے ہیں کہ ہمارے بھائی بنیامین کو آزاد کر کے ہم پر احسان فرمائیں۔