تفسیر احسن البیان

سورة يوسف
فَلَمَّا جَهَّزَهُمْ بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ[70]
پھر جب انھیں ان کا سامان اسباب ٹھیک ٹھاک کر کے دیا تو اپنے بھائی کے اسباب میں پانی پینے کا پیالہ (1) رکھوا دیا پھر ایک آواز دینے والے نے پکار کر کہا کہ اے قافلے والو ! (2) تم لوگ تو چور ہو (3)۔[70]
تفسیر احسن البیان
70۔ 1 مفسرین نے بیان کیا ہے کہ یہ سقایہ (پانی پینے کا برتن) سونے یا چاندی کا تھا، پانی پینے کے علاوہ غلہ ناپنے کا کام بھی اس سے لیا جاتا تھا، اسے چپکے سے بنیامین کے سامان میں رکھ دیا گیا۔ 70۔ 2 الْعیر اصلاً ان اونٹوں، گدھوں یا خچر کو کہا جاتا ہے جن پر غلہ لاد کرلے جایا جاتا ہے۔ یہاں مراد اصحاب العیر یعنی قافلے والے۔ 70۔ 3 چوری کی یہ نسبت اپنی جگہ صحیح تھی کیونکہ منادی حضرت یوسف ؑ کے سوچے سمجھے منصوبے سے آگاہ نہیں تھا یا اس کے معنی ہیں کہ تمہارا حال چوروں کا سا ہے کہ بادشاہ کا پیالہ، بادشاہ کی رضامندی کے بغیر تمہارے سامان کے اندر ہے۔