تفسیر احسن البیان

سورة يوسف
وَجَاءُوا عَلَى قَمِيصِهِ بِدَمٍ كَذِبٍ قَالَ بَلْ سَوَّلَتْ لَكُمْ أَنْفُسُكُمْ أَمْرًا فَصَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ[18]
اور یوسف کے کرتے کو جھوٹ موٹ کے خون سے خون آلود بھی کر لائے تھے، باپ نے کہا یوں نہیں، بلکہ تم نے اپنے دل ہی میں سے ایک بات بنالی ہے۔ پس صبر ہی بہتر ہے، اور تمہاری بنائی ہوئی باتوں پر اللہ ہی سے مدد کی طلب ہے۔[18]
تفسیر احسن البیان
18۔ 1 کہتے ہیں کہ ایک بکری کا بچہ ذبح کر کے یوسف ؑ کی قمیص خون میں لت پت کرلی اور یہ بھول گئے کہ بھیڑیا اگر یوسف ؑ کو کھاتا تو قمیص کو بھی پھٹنا تھا، قمیص ثابت کی ثابت ہی تھی جس کو دیکھ کر، علاوہ ازیں حضرت یوسف ؑ کے خواب اور فراست نبوت سے اندازہ لگا کر حضرت یعقوب ؑ نے فرمایا کہ یہ واقعہ اس طرح پیش نہیں آیا جو تم بیان کر رہے ہو، بلکہ تم نے اپنے دلوں سے ہی یہ بات بنا لی ہے، حضرت یعقوب اس کی تفصیل سے بیخبر تھے، اس لئے سوائے صبر کے کوئی چارہ اور اللہ کی مدد کے علاوہ کوئی سہارا نہ تھا۔ 18۔ 1 منافقین نے جب حضرت عائشہ ؓ پر تہمت لگائی تو انہوں نے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے افہام وارشاد کے جواب میں فرمایا تھا۔ واللہ لا اجدلی ولالکم مثلا الا ابا یوسف (فصبر جمیل واللہ المستعان علی ماتصفون) اللہ کی قسم میں اپنے اور آپ لوگوں کے لیے وہی مثال پاتی ہوں جس سے یوسف ؑ کے باپ یعقوب ؑ کو سابقہ پیش آیا تھا اور انہوں نے فصبر جمعیل کہہ کر صبر کا راستہ اختیار کیا تھا، یعنی میرے لیے بھی سوائے صبر کے کوئی چارہ نہیں۔