قرآن مجيد

سورة الانعام
وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ كُلًّا هَدَيْنَا وَنُوحًا هَدَيْنَا مِنْ قَبْلُ وَمِنْ ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَى وَهَارُونَ وَكَذَلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ[84]
اور ہم نے اسے اسحاق اور یعقوب عطا کیے، ان سب کو ہم نے ہدایت دی اور اس سے پہلے نوح کو ہدایت دی اور اس کی اولاد میں سے دائود اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو اور اسی طرح ہم نیکی کرنے والوں کو جزا دیتے ہیں۔[84]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 84، 85، 86، 87، 88، 89، 90،

خلیل الرحمن کو بشارت اولاد ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنا احسان بیان فرما رہا ہے کہ خلیل الرحمن کو اس نے ان کے بڑھاپے کے وقت بیٹا عطا فرمایا جن کا نام اسحٰق (‏‏‏‏علیہ السلام) ہے اس وقت آپ علیہ السلام بھی اولاد سے مایوس ہو چکے تھے اور آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ رضی اللہ عنہا بھی مایوس ہو چکی تھیں جو فرشتے بشارت سنانے آتے ہیں وہ قوم لوط کی ہلاکت کیلئے جا رہے تھے۔ آیت میں ہے کہ «قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ» [11-هود:72-73] ‏‏‏‏ ان سے بشارت سن کر مائی صاحبہ سخت متعجب ہو کر کہتی ہیں میں بڑھیا کھوسٹ ہو چکی میرے خاوند عمر سے اتر چکے ہمارے ہاں بچہ ہونا تعجب کی بات ہے۔

فرشتوں نے جواب دیا اللہ کی قدرت میں ایسے تعجبات عام ہوتے ہیں۔ اے نبی علیہ السلام کے گھرانے والو تم پر رب کی رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں اللہ بڑی تعریفوں والا اور بڑی بزرگیوں والا ہے اتنا ہی نہیں کہ تمہارے ہاں بچہ ہو گا بلکہ وہ نبی زادہ خود بھی نبی ہوگا اور اس سے تمہاری نسل پھیلے گی اور باقی رہے گی۔

قرآن کی اور آیت «وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ» [37-الصافات:112] ‏‏‏‏ میں بشارت کے الفاظ میں نبیا کا لفظ بھی ہے۔ پھر لطف یہ ہے کہ «فَبَشَّرْنَاهَا بِإِسْحَاقَ وَمِن وَرَاءِ إِسْحَاقَ يَعْقُوبَ» [11-هود:71] ‏‏‏‏ اولاد کی اولاد بھی تم دیکھ لوگے اسحاق کے گھر یعقوب پیدا ہوں گے اور تمہیں خوشی پر خوشی ہوگی اور پھر پوتے کا نام یعقوب رکھنا جو عقب سے مشتق ہے خوشخبری ہے اس امر کی کہ یہ نسل جاری رہے گی۔

فی الواقع خلیل اللہ علیہ السلام اس بشارت کے قابل بھی تھے قوم کو چھوڑا ان سے منہ موڑا شہر کو چھوڑا ہجرت کی، اللہ نے دنیا میں بھی انعام دیئے، اتنی نسل پھیلائی جو آج تک دنیا میں آباد ہے -

فرمان الٰہی ہے کہ «فَلَمَّا اعْتَزَلَهُمْ وَمَا يَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ وَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ وَكُلًّا جَعَلْنَا نَبِيًّا» [19-مريم:49] ‏‏‏‏ ” جب ابراہیم علیہ السلام نے اپنی قوم کو اور ان کے معبودوں کو چھوڑا تو ہم نے انہیں اسحاق و یعقوب بخشا اور دونوں کو نبی بنایا “۔

یہاں فرمایا ” ان سب کو ہم نے ہدایت دی تھی اور ان کی بھی نیک اولاد دنیا میں باقی رہی “۔ طوفان نوح میں کفار سب غرق ہو گئے پھر نوح علیہ السلام کی نسل پھیلی انبیاء علیہم السلام انہی کی نسل میں سے ہوتے رہے، ابراہیم علیہ السلام کے بعد تو نبوت انہی کے گھرانے میں رہی۔ جیسے فرمان ہے آیت «وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّتِهِ النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ وَاٰتَيْنٰهُ اَجْرَهٗ فِي الدُّنْيَا» [29۔العنکبوت:27] ‏‏‏‏ ” ہم نے ان ہی کی اولاد میں نبوت اور کتاب رکھی “۔

اور آیت میں ہے «وَلَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّاِبْرٰهِيْمَ وَجَعَلْنَا فِيْ ذُرِّيَّـتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَالْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ» [57۔الحدید:26] ‏‏‏‏ یعنی ” ہم نے نوح اور ابراہیم کو رسول بنا کر پھر ان ہی دونوں کی اولاد میں نبوت اور کتاب کردی “۔

اور آیت میں ہے «أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِم مِّنَ النَّبِيِّينَ مِن ذُرِّيَّةِ آدَمَ وَمِمَّنْ حَمَلْنَا مَعَ نُوحٍ وَمِن ذُرِّيَّةِ إِبْرَاهِيمَ وَإِسْرَائِيلَ وَمِمَّنْ هَدَيْنَا وَاجْتَبَيْنَا إِذَا تُتْلَىٰ عَلَيْهِمْ آيَاتُ الرَّحْمَـٰنِ خَرُّوا سُجَّدًا وَبُكِيًّا ۩» [19-مريم:58] ‏‏‏‏ ” یہ ہیں جن پر انعام الٰہی ہوا۔ نبیوں میں سے آدم کو اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے نوح کے ساتھ کشتی میں لے لیا تھا اور ابراہیم اور اسرائیل کی اولاد میں سے اور جنہیں ہم نے ہدایت کی تھی اور پسند کر لیا تھا ان پر جب رحمان کی آیتیں پڑھی جاتی تھیں تو روتے گڑگڑاتے سجدے میں گر پڑتے تھے “۔

پھر فرمایا ” ہم نے اس کی اولاد میں سے داؤد و سلیمان کو ہدایت کی “، اس میں اگر ضمیر کا مرجع نوح علیہ السلام کو کیا جائے تو ٹھیک ہے اس لیے کہ ضمیر سے پہلے سب سے قریب نام یہی ہے۔

امام ابن جریر رحمہ اللہ اسی کو پسند فرماتے ہیں اور ہے بھی یہ بالکل ظاہر جس میں کوئی اشکال نہیں ہاں اسے ابراہیم علیہ السلام کی طرف لوٹانا بھی ہے تو اچھا اس لیے کہ کلام انہی کے بارے میں ہے قصہ انہی کا بیان ہو رہا ہے لیکن بعد کے ناموں میں سے لوط علیہ السلام کا نام اولاد آدم میں ہونا ذرا مشکل ہے اس لیے کہ لوط علیہ السلام خلیل اللہ علیہ السلام کی اولاد میں نہیں بلکہ ان کے والد کا نام ماران ہے وہ آزر کے لڑکے تھے تو وہ آپ علیہ السلام کے بھتیجے ہوئے -

ہاں اس کا جواب یہ ہو سکتا ہے کہ با اعتبار غلبے کے انہیں بھی اولاد میں شامل کر لیا گیا جیسے کہ آیت «اَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ اِذْ حَضَرَ يَعْقُوْبَ الْمَوْتُ اِذْ قَالَ لِبَنِيْهِ مَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ بَعْدِيْ» [2۔ البقرہ:133] ‏‏‏‏ میں اسمعیل علیہ السلام کو جو اولاد یعقوب کے چچا تھا باپوں میں شمار کر لیا گیا ہے، ہاں یہ بھی خیال رہے کہ عیسیٰ علیہ السلام کو اولاد ابراہیم علیہ السلام یا اولاد نوح علیہ السلام میں گننا اس بنا پر ہے کہ لڑکیوں کی اولاد یعنی نواسے بھی اولاد میں داخل ہیں کیونکہ عیسیٰ علیہ السلام بن باپ کے پیدا ہوئے تھے۔

روایت میں ہے حجاج نے یحییٰ بن یعمر کے پاس آدمی بھیجا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ تو حسن، حسین رضی اللہ عنہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں گنتا ہے اور کہتا ہے کہ یہ قرآن سے ثابت ہے لیکن میں تو پورے قرآن میں کسی جگہ یہ نہیں پاتا، آپ نے جواب دیا کیا تو نے سورۃ الانعام میں آیت «وَمِنْ ذُرِّيَّتِهٖ دَاوٗدَ وَسُلَيْمٰنَ وَاَيُّوْبَ وَيُوْسُفَ وَمُوْسٰي وَهٰرُوْنَ وَكَذٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِيْنَ» [6-الأنعام:84] ‏‏‏‏ نہیں پڑھا اس نے کہا ہاں یہ تو پڑھا ہے کہا پھر دیکھو اس میں عیسیٰ علیہ السلام کا نام ہے اور ان کا کوئی باپ تھا ہی نہیں تو معلوم ہوا کہ لڑکی کی اولاد بھی اولاد ہی ہے۔ حجاج نے کہا بے شک آپ سچے ہیں۔

اسی لیے مسئلہ ہے کہ جب کوئی شخص اپنی ذریت کے لیے وصیت کرے یا وقف کرے یا ہبہ کرے تو لڑکیوں کی اولاد بھی اس میں داخل ہے۔ ہاں اگر اس نے اپنے لڑکوں کو دیا ہے یا ان پر وقف کیا ہے تو اس کے اپنے صلبی لڑکے اور لڑکوں کے لڑکے اس میں شامل ہوں گے اس کی دلیل عربی شاعر کا یہ شعر سنئے۔ «بنو نا بنوا ابنا ئنا و بنا تنا بنو ھن ابناء الرجال الا جانب» یعنی ہمارے لڑکوں کے لڑکے تو ہمارے لڑکے ہیں اور ہماری لڑکیوں کے لڑکے اجنبیوں کے لڑکے ہیں اور لوگ کہتے ہیں کہ لڑکیوں کے لڑکے بھی ان میں داخل ہیں کیونکہ صحیح بخاری شریف کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حسن بن علی رضی اللہ عنہ کی نسبت فرمایا: میرا یہ لڑکا سید ہے اور ان شاءاللہ اس کی وجہ سے مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں میں اللہ تعالیٰ صلح کرا دے گا ۔ [صحیح بخاری:2704] ‏‏‏‏

پس نواسے کو اپنا لڑکا کہنے سے لڑکیوں کی اولاد کا بھی اپنی اولاد میں داخل ہونا ثابت ہوا اور لوگ کہتے ہیں کہ یہ مجاز ہے۔ اس کے بعد فرمایا ان کے باپ دادے ان کی اولادیں ان کے بھائی الغرض اصول و فروع اور اہل طبقہ کا ذکر آگیا کہ ہدایت اور پسندیدگی ان سب کو گھیرے ہوئے ہے، یہ اللہ کی سچی اور سیدھی راہ پر لگا دیئے گئے ہیں۔ یہ جو کچھ انہیں حاصل ہوا یہ اللہ کی مہربانی اس کی توفیق اور اس کی ہدایت سے ہے۔

پھر شرک کا کامل برائی لوگوں کے ذہن میں آجائے اس لیے فرمایا کہ ” اگر بالفرض نبیوں کا یہ گروہ بھی شرک کر بیٹھے تو ان کی بھی تمام تر نیکیاں ضائع ہو جائیں “۔

جیسے ارشاد ہے آیت «وَلَقَدْ اُوْحِيَ اِلَيْكَ وَاِلَى الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِكَ لَىِٕنْ اَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِيْنَ» [39۔الزمر:65] ‏‏‏‏ ” تجھ پر اور تجھ سے پہلے کے ایک ایک نبی پر یہ وحی بھیج دی گئی کہ اگر تو نے شرک کیا تو تیرے اعمال اکارت ہو جائیں گے “۔ یہ یاد رہے کہ یہ شرط ہے اور شرط کا واقع ہونا ہی ضروری نہیں۔

جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ اِنْ كَان للرَّحْمٰنِ وَلَدٌ فَاَنَا اَوَّلُ الْعٰبِدِيْنَ» [43-الزخرف:81] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر اللہ کی اولاد ہو تو میں تو سب سے پہلے ماننے والا بن جاؤں “۔ اور جیسے اور آیت میں ہے «لَـوْ اَرَدْنَآ اَنْ نَّتَّخِذَ لَهْوًا لَّاتَّخَذْنٰهُ مِنْ لَّدُنَّآ اِنْ كُنَّا فٰعِلِيْنَ» [21-الأنبياء:17] ‏‏‏‏ یعنی ” اگر کھیل تماشا بنانا ہی چاہتے ہو تو اپنے پاس سے ہی بنا لیتے “۔

اور فرمان ہے آیت «لَوْ اَرَاد اللّٰهُ اَنْ يَّتَّخِذَ وَلَدًا لَّاصْطَفٰى مِمَّا يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ سُبْحٰنَهٗ» [39۔الزمر:4] ‏‏‏‏ ” اگر اللہ تعالیٰ اولاد کا ہی ارادہ کرتا تو اپنی مخلوق میں سے جسے چاہتا چن لیتا لیکن وہ اس سے پاک ہے اور وہ یکتا اور غالب ہے “۔

پھر فرمایا ” بندوں پر رحمت نازل فرمانے کیلئے ہم نے انہیں کتاب حکمت اور نبوت عطا فرمائی پس اگر یہ لوگ یعنی اہل مکہ اس کے ساتھ یعنی نبوت کے ساتھ یا کتاب و حکمت و نبوت کے ساتھ کفر کریں یہ اگر ان نعمتوں کا انکار کریں خواہ قریش ہوں خواہ اہل کتاب ہوں خواہ کوئی اور عربی یا عجمی ہوں تو کوئی حرج نہیں۔ ہم نے ایک قوم ایسی بھی تیار کر رکھی ہے جو اس کے ساتھ کبھی کفر نہ کرے گی “۔

یعنی مہاجرین انصار اور ان کی تابعداری کرنے والے ان کے بعد آنے والے یہ لوگ نہ کسی امر کا انکار کریں گے نہ تحریف یا ردوبدل کریں گے بلکہ ایمان کامل لے آئیں گے ہر ہر حرف کو مانیں گے محکم متشابہ سب کا اقرار کریں گے سب پر عقیدہ رکھیں گے۔

اللہ تعالیٰ ہمیں بھی اپنے فضل و کرم سے ان ہی باایمان لوگوں میں کر دے۔ پھر اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرکے فرماتا ہے ” جن انبیاء کرام علیہم السلام کا ذکر ہوا اور جو مجمل طور پر ان کے بڑوں چھوٹوں اور لواحقین میں سے مذکور ہوئے یہی سب اہل ہدایت ہیں تو اپنے نبی آخر الزمان ہی کی اقتداء اور اتباع کرو “، اور جب یہ حکم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ہے تو ظاہر ہے کہ آپ کی امت بطور اولیٰ اس میں داخل ہے۔

صحیح بخاری شریف میں اس آیت کی تفسیر میں حدیث لائے ہیں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آپ رضی اللہ عنہ کے شاگرد رشید مجاہد رحمتہ اللہ علیہ نے سوال کیا کہ کیا سورۃ ص میں سجدہ ہے؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا ہاں ہے۔‏‏‏‏ پھر آپ نے یہ یہ آیت تلاوت فرمائی اور فرمایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کی تابعداری کا حکم ہوا ہے ۔ [صحیح بخاری:4632] ‏‏‏‏

پھر فرماتا ہے کہ ” اے نبی (‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وسلم )! ان میں اعلان کر دو کہ یہ میں تو قرآن پہنچانے کا کوئی معاوضہ یا بدلہ یا اجرت تم سے نہیں چاہتا۔ یہ تو صرف دنیا کیلئے نصیحت ہے کہ وہ اندھے پن کو چھوڑ کر آنکھوں کا نور حاصل کر لیں اور برائی سے کٹ کر بھلائی پا لیں اور کفر سے نکل کر ایمان میں آ جائیں “۔