اور انھوں نے اللہ کی قدر نہیں کی، جو اس کی قدر کا حق تھا، جب انھوں نے کہا کہ اللہ نے کسی بشر پر کوئی چیز نہیں اتاری۔ کہہ وہ کتاب کس نے اتاری جو موسیٰ لے کر آیا؟ جو لوگوں کے لیے روشنی اور ہدایت تھی، تم اسے چند ورق بناتے ہو، جنھیں ظاہر کرتے ہو اور بہت سے چھپاتے ہو اور تمھیں وہ علم دیا گیا جو نہ تم نے جانا اور نہ تمھارے باپ دادا نے۔ کہہ اللہ نے، پھر انھیں چھوڑ دے، اپنی (فضول) بحث میں کھیلتے رہیں۔[91]
اللہ کے رسولوں کے جھٹلانے والے دراصل اللہ کی عظمت کے ماننے والے نہیں۔ عبداللہ بن کثیر کہتے ہیں کفار قریش کے حق میں یہ آیت اتری ہے اور قول ہے کہ یہود کی ایک جماعت کے حق میں ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ فخاص یہودی کے حق میں اور یہ بھی ہے کہ مالک بن صیف کے بارے میں کہا گیا ہے۔
صحیح بات یہ ہے کہ پہلا قول حق اس لیے ہے کہ آیت مکیہ ہے اور اس لیے بھی کہ یہودی آسمان سے کتاب اترنے کے بالکل منکر نہ تھے، ہاں البتہ قریشی اور عام عرب حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کے قائل نہ تھے اور کہتے تھے کہ انسان اللہ کا رسول نہیں ہو سکتا۔
جیسے قرآن ان کا تعجب نقل کرتا ہے آیت «أَكَانَ لِلنَّاسِ عَجَبًا أَنْ أَوْحَيْنَا إِلَى رَجُلٍ مِنْهُمْ أَنْ أَنْذِرِ النَّاسَ وَبَشِّرِ الَّذِينَ آمَنُوا أَنَّ لَهُمْ قَدَمَ صِدْقٍ عِنْدَ رَبِّهِمْ» [10-یونس:2] یعنی ” کیا لوگوں کو اس بات پر اچنبھا ہوا کہ ہم نے انہی میں سے ایک شخص کی طرف وحی نزول فرمائی کہ وہ لوگوں کو ہوشیار کر دے “۔
اور آیت میں ہے «وَمَا مَنَعَ النَّاسَ اَنْ يُّؤْمِنُوْٓا اِذْ جَاءَهُمُ الْهُدٰٓى اِلَّآ اَنْ قَالُوْٓا اَبَعَثَ اللّٰهُ بَشَرًا رَّسُوْلًا قُل لَّوْ كَانَ فِي الْأَرْضِ مَلَائِكَةٌ يَمْشُونَ مُطْمَئِنِّينَ لَنَزَّلْنَا عَلَيْهِم مِّنَ السَّمَاءِ مَلَكًا رَّسُولًا» [17-الاسراء:95-94] ” لوگوں کے اس خیال نے ہی کہ کیا اللہ نے انسان کو اپنا رسول بنا لیا انہیں ایمان سے روک دیا ہے، سنو اگر زمین میں فرشتے بستے ہوتے تو ہم بھی آسمان سے کسی فرشتے کو رسول بنا کر بھیجتے “۔
یہاں بھی کفار کا یہی اعتراض بیان کرکے فرماتا ہے کہ ” انہیں جواب دو کہ تم جو بالکل انکار کرتے ہو کہ کسی انسان پر اللہ تعالیٰ نے کچھ بھی نازل نہیں فرمایا یہ تمہاری کیسی کھلی غلطی ہے؟ بھلا بتلاؤ موسیٰ (علیہ السلام) پر تورات کس نے اتاری تھی جو سراسر نور و ہدایت تھی “۔
الغرض تورات کے تم سب قائل ہو جو مشکل مسائل آسان کرنے والی، کفر کے اندھیروں کو چھانٹنے، شبہ کو ہٹانے اور راہ راست دکھانے والی ہے، تم نے اس کے ٹکڑے ٹکڑے کر رکھے ہیں صحیح اور اصلی کتاب میں سے بہت سا حصہ چھپا رکھا ہے کچھ اس میں سے لکھ لاتے ہو اور پھر اسے بھی تحریف کر کے لوگوں کو بتا رہے ہو، اپنی باتوں اپنے خیالات کو اللہ کی کتاب کی طرف منسوب کرتے ہو۔
قرآن تو وہ ہے جو تمہارے سامنے وہ علوم پیش کرتا ہے جن سے تم اور تمہارے اگلے اور تمہارے بڑے سب محروم تھے، پچھلی سچی خبریں اس میں موجود، آنے والے واقعات کی صحیح خبریں اس میں موجود ہیں جو آج تک دنیا کے علم میں نہیں آئی تھیں -کہتے ہیں اس سے مراد مشرکین عرب ہیں اور بعض کہتے ہیں اس سے مراد مسلمان ہیں۔
پھر حکم دیتا ہے کہ ” یہ لوگ تو اس کا جواب کیا دیں گے کہ تورات کس نے اتاری؟ تو خود کہہ دے کہ اللہ نے اتاری ہے پھر انہیں ان کی جہالت و ضلالت میں ہی کھیلتا ہوا چھوڑ دے یہاں تک کہ انہیں موت آئے اور یقین کی آنکھوں سے خود ہی دیکھ لیں کہ اس جہان میں یہ اچھے رہتے ہیں یا مسلمان متقی؟ یہ کتاب یعنی قرآن کریم ہمارا اتارا ہوا ہے، یہ بابرکت ہے یہ اگلی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے ہم نے اسے تیری طرف اس لیے نازل فرمایا کہ تو اہل مکہ کو، اس کے پاس والوں کو یعنی عرب کے قبائل اور عجمیوں کو ہوشیار کر دے اور ڈراوا دیدے “۔
«مَنْ حَوْلَهَا» سے مراد ساری دنیا ہے اور آیت میں ہے «قُلْ يَا أَيُّهَا النَّاسُ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكُمْ جَمِيعًا» [7۔ الأعراف:158] یعنی ” اے دنیا جہان کے لوگو میں تم سب کی طرف اللہ کا پیغمبر ہوں “۔
اور آیت میں ہے «لِأُنْذِرَكُمْ بِهِ وَمَنْ بَلَغَ» [6۔ الأنعام:19] ” تاکہ میں تمہیں بھی اور جسے یہ پہنچے اسے ڈرا دوں اور قرآن سنا کر عذابوں سے خبردار کر دوں “۔ اور فرمان ہے آیت «وَمَنْ يَكْفُرْ بِهِ مِنَ الْأَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهُ» [11-ھود:17] ” جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کا ٹھکانا جہنم ہے “۔
اور آیت میں فرمایا گیا «تَبٰرَكَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰي عَبْدِهٖ لِيَكُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرَا» [25۔ الفرقان:1] یعنی ” اللہ برکتوں والا ہے جس نے اپنے بندے پر قرآن نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہان والوں کو آگاہ کر دے “۔
اور آیت میں ارشاد ہے «وَقُلْ لِلَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ وَالْأُمِّيِّينَ أَأَسْلَمْتُمْ فَإِنْ أَسْلَمُوا فَقَدِ اهْتَدَوْا وَإِنْ تَوَلَّوْا فَإِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ وَاللَّهُ بَصِيرٌ بِالْعِبَادِ» [3-آل عمران:20] یعنی ” اہل کتاب سے اور ان پڑھوں سے بس سے کہہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو؟ اگر قبول کر لیں تو راہ راست پر ہیں اور اگر منہ موڑ لیں تو تجھ پر تو صرف پہنچا دینا ہے اللہ اپنے بندے کو خوب دیکھ رہا ہے “۔
بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی علیہ السلام کو نہیں دی گئیں ان کو بیان فرماتے ہوئے ایک یہ بیان فرمایا کہ ہر نبی علیہ السلام صرف ایک قوم کی طرف بھیجا جاتا تھا لیکن میں تمام لوگوں کی طرف بھیجا گیا ہوں ۔ [صحیح بخاری:335]
اسی لیے یہاں بھی ارشاد ہوا کہ ” قیامت کے معتقد تو اسے مانتے ہیں جانتے ہیں کہ یہ قرآن اللہ کی سچی کتاب ہے اور وہ نمازیں بھی صحیح وقتوں پر برابر پڑھا کرتے ہیں اللہ کے اس فرض کے قیام میں اور اس کی حفاظت میں سستی اور کاہلی نہیں کرتے “۔