قرآن مجيد

سورة القيامة
وَجُمِعَ الشَّمْسُ وَالْقَمَرُ[9]
اور سورج اور چاند اکٹھے کر دیے جائیں گے۔[9]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 9، 10، 11، 12، 13، 14، 15،

باب

یہاں بھی فرماتا ہے کہ ” جب آنکھیں پتھرا جائیں گی “، جیسے اور جگہ ہے «لَا يَرْتَدُّ اِلَيْهِمْ طَرْفُهُمْ وَاَفْــِٕدَتُهُمْ هَوَاءٌ» [14-إبراھیم:43] ‏‏‏‏، یعنی ” پلکیں جھپکیں گی نہیں بلکہ رعب و دہشت خوف و وحشت کے مارے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ادھر ادھر دیکھتے رہیں گے “۔

«بَرِقَ» کی دوسری قرأت «بَرَقَ» بھی ہے، معنی قریب قریب ہیں اور چاند کی روشنی بالکل جاتی رہے گی اور سورج چاند جمع کر دیئے جائیں گے یعنی دونوں کو بے نور کر کے لپیٹ لیا جائے گا۔

جیسے فرمایا «إِذَا الشَّمْسُ كُوِّرَتْ وَإِذَا النُّجُومُ انكَدَرَتْ» [81-التكوير:2،1] ‏‏‏‏

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی قرأت میں «وَجُمِعَ بَيْنَ الشَّمْسِ وَالْقَمَرِ» ہے۔ انسان جب یہ پریشانی، شدت ہول، گھبراہٹ اور انتظام عالم کی یہ خطرناک حالت دیکھے گا تو بھاگا جائے گا اور کہے گا کہ جائے پناہ یعنی بھاگنے کی جگہ کہاں ہے؟ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو ملے گا کہ کوئی پناہ نہیں رب کے سامنے اور اس کے پاس ٹھہرنے کے سوا کوئی چارہ کار نہیں، جیسے اور جگہ ہے «مَا لَكُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍ يَّوْمَىِٕذٍ وَّمَا لَكُمْ مِّنْ نَّكِيْرٍ» [42-الشورى:47] ‏‏‏‏ یعنی ” آج نہ تو کوئی جائے پناہ ہے، نہ ایسی جگہ کہ وہاں جا کر تم انجان اور بے پہچان بن جاؤ، آج ہر شخص کو اس کے اگلے پچھلے نئے پرانے چھوٹے بڑے اعمال سے مطلع کیا جائے گا “۔

جیسے فرمان ہے «وَوَجَدُوْا مَا عَمِلُوْا حَاضِرًا» [18-الكهف:49] ‏‏‏‏ ” جو کیا تھا، موجود پا لیں گے اور تیرا رب کسی پر ظلم نہ کرے گا “۔ انسان اپنے آپ کو بخوبی جانتا ہے اپنے اعمال کا خود آئینہ ہے گو انکار کرے اور عذر معذرت پیش کرتا پھرے۔

جیسے فرمان ہے «اِقْرَاْ كِتٰبَكَ كَفٰى بِنَفْسِكَ الْيَوْمَ عَلَيْكَ حَسِيْبًا» [17-الإسراء:14] ‏‏‏‏ ” اپنا نامہ اعمال خود پڑھ لے اور اپنے تئیں آپ ہی جانچ لے، اس کے کان آنکھ، پاؤں اور دیگر اعضاء ہی اس پر شہادت دینے کافی ہیں، لیکن افسوس کہ یہ دوسروں کے عیبوں اور نقصانوں کو دیکھتا ہے اور اپنے کیڑے چننے سے غافل ہے “۔

کہا جاتا ہے کہ توراۃ میں لکھا ہوا ہے اے ابن آدم تو دوسروں کی آنکھوں کا تو تنکا دیکھتا ہے اور اپنی آنکھ کا شہتیر بھی تجھے دکھائی نہیں دیتا؟ قیامت کے دن چاہے انسان فضول بہانے بنائے گا اور جھوٹی دلیلیں دے گا، بے کار عذر پیش کرے گا مگر ایک بھی قبول نہ کیا جائے گا۔ اس آیت کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ وہ پردے ڈالے۔

اہل یمن پردے کو «الْمِعْذَارَ» کہتے ہیں، لیکن صحیح معنی اوپر والے ہیں جیسے اور جگہ ہے کہ «ثُمَّ لَمْ تَكُن فِتْنَتُهُمْ إِلَّا أَن قَالُوا وَاللَّـهِ رَبِّنَا مَا كُنَّا مُشْرِكِينَ» [6-الأنعام:23] ‏‏‏‏ ” کوئی معقول عذر نہ پا کر اپنے شرک کا سرے سے انکار ہی کر دیں گے کہ اللہ کی قسم ہم مشرک تھے ہی نہیں “۔

اور جگہ ہے کہ «يَوْمَ يَبْعَثُهُمُ اللَّـهُ جَمِيعًا فَيَحْلِفُونَ لَهُ كَمَا يَحْلِفُونَ لَكُمْ وَيَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ عَلَىٰ شَيْءٍ أَلَا إِنَّهُمْ هُمُ الْكَاذِبُونَ» [58-المجادلہ:18] ‏‏‏‏ ” قیامت کے دن اللہ کے سامنے بھی قسمیں کھا کھا کر سچا ہونا چاہیں گے جیسے دنیا میں تمہارے سامنے ان کی حالت ہے لیکن اللہ پر تو ان کا جھوٹ ظاہر ہے چاہے کتنا ہی وہ اپنی تئیں کچھ بھی سمجھتے رہیں “، غرض عذر معذرت انہیں قیامت کے دن کچھ کار آمد نہ ہو گا۔

جیسے اور جگہ فرماتا ہے «يَوْمَ لَا يَنْفَعُ الظّٰلِمِيْنَ مَعْذِرَتُهُمْ وَلَهُمُ اللَّعْنَةُ وَلَهُمْ سُوْءُ الدَّارِ» [40-غافر:52] ‏‏‏‏ ” ظالموں کو ان کی معذرت کچھ کام نہ آئے گی یہ تو اپنے شکر کے ساتھ اپنی تمام بداعمالیوں کا بھی انکار کردیں گے لیکن بے سود ہوگا “۔