اللہ تعالیٰ نیک بختوں کا انجام بیان فرما رہا ہے کہ عذاب و سزا جو ان بدبختوں کو ہو رہا ہے یہ اس سے محفوظ کر کے جنتوں میں پہنچا دئیے گئے، جہاں کی بہترین نعمتوں سے فائدہ اٹھا رہے ہیں اور ہر طرح خوش حال، خوش دل ہیں، قسم قسم کے کھانے، طرح طرح کے پینے، بہترین لباس، عمدہ عمدہ سواریاں، بلند و بالا مکانات اور ہر طرح کی نعمتیں انہیں مہیا ہیں، کسی قسم کا ڈر خوف نہیں اللہ فرما چکا ہے کہ تمہیں میرے عذابوں سے نجات مل گئی، غرض دکھ سے دور، سکھ سے مسرور، راحت و لذت میں مخمور ہیں، جو چیز سامنے آتی ہے وہ ایسی ہے جسے نہ کسی آنکھ نے دیکھا ہو، نہ کسی کان نے سنا ہو، نہ کسی دل پر خیال تک گزرا ہو، پھر اللہ کی طرف سے باربار مہمان نوازی کے طور پر ان سے کہا جاتا ہے «كُلُوا وَاشْرَبُوا هَنِيئًا بِمَا أَسْلَفْتُمْ فِي الْأَيَّامِ الْخَالِيَةِ» [69-الحاقة:24] کھاتے پیتے رہو، خوش گوار، خوش ذائقہ، بےتکلف مزید مرغوب چیزیں تمہارے لیے مہیا ہیں۔
پھر ان کا دل خوش کرنے حوصلہ بڑھانے اور طبیعت میں امنگ پیدا کرنے کے لیے ساتھ ہی اعلان ہوتا ہے کہ یہ تو تمہارے اعمال کا بدلہ ہے جو تم اس جہان میں کر آئے ہو «عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ» [37-الصفات:45] مرصع اور جڑاؤ شاہانہ تخت پر بڑی بےفکری اور فارغ البالی سے تکئے لگائے بیٹھے ہوں گے، ستر ستر سال گزر جائیں گے انہیں ضرورت نہ ہو گی کہ اٹھیں یا ہلیں جلیں، بےشمار سلیقہ شعار، ادب دان خدام ہر طرح کی خدمت کے لیے کمربستہ جس چیز کو جی چاہے آن کی آن میں موجود، آنکھوں کا نور، دل کا سرور، وافر و موفور سامنے بے انتہاء خوبصورت، خوب سیرت، گورے گورے پنڈے والی، بڑی بڑی رسیلی آنکھوں والی، بہت سی حوریں پاک دل، عفت مآب عصمت، خوش دل بہلانے اور خواہش پوری کرنے کے لیے سامنے کھڑی ہر ایک نعمت و رحمت چاروں طرف بکھری ہوئی، پھر بھلا انہیں کس چیز کی کمی۔ ستر سال کے بعد جب دوسری طرف مائل ہوتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ وہاں اور ہی منظر ہے، ہر چیز نئی ہے، ہر نعمت جوبن پر ہے، اس طرف کی حوروں پر نظریں ڈالتے ہیں تو ان کے نور کی چکا چوند حیرت میں ڈال دیتی ہے، ان کی پیاری پیاری، بھولی بھالی شکلیں، اچھوتے پنڈے اور کنوار پن کی شرمیلی نظریں اور جوانی کا بانکپن دل پر مقناطیسی اثر ڈالتا ہے
جنتی کچھ کہے اس سے پہلے ہی وہ اپنی شیریں کلامی سے عجیب انداز سے کہتی ہیں، شکر ہے کہ آپ کا التفات ہماری طرف بھی ہوا، غرض اسی طرح من مانی نعمتوں سے مست ہو رہے ہیں۔ پھر ان جنتیوں کے تخت باوجود قطار وار ہونے کے اس طرح نہ ہوں گے کہ کسی کو کسی کی پیٹھ ہو بلکہ آمنے سامنے ہوں گے جیسے اور جگہ ہے «وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ اِخْوَانًا عَلٰي سُرُرٍ مُّتَقٰبِلِيْنَ» [15-الحجر:47] تختوں پر ہوں گے اور ایک دوسرے کے سامنے ہوں گے۔
پھر فرماتا ہے ہم نے ان کے نکاح میں حوریں دے رکھی ہیں جو کبھی دل میلا نہ کریں، جب آنکھ پڑے، جی خوش ہو جائے اور ظاہری خوبصورتی کی تو کسی سے تعریف ہی کیا ہو سکتی ہے؟ ان کے اوصاف کے بیان کی حدیثیں وغیرہ کئی مقامات پر گزر چکی ہیں اس لئے انہیں یہاں وارد کرنا کچھ چنداں ضروری نہیں۔