اور اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمھارے لیے تمھی سے بیویاں پیدا کیں، تاکہ تم ان کی طرف (جاکر) آرام پائو اور اس نے تمھارے درمیان دوستی اور مہربانی رکھ دی، بے شک اس میں ان لوگوں کے لیے یقینا بہت سی نشانیاں ہیں جو غور کرتے ہیں۔[21]
فرماتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی قدرت کی بے شمار نشانیوں میں سے ایک نشانی یہ بھی ہے کہ اس نے تمہارے باپ آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ تم سب کو اس نے بے وقعت پانی کے قطرے سے پیدا کیا “۔
پھر تمہاری بہت اچھی صورتیں بنائیں نطفے سے خون بستہ کی شکل میں پھر گوشت کے لوتھڑے کی صورت میں ڈھال کر پھر ہڈیاں بنائیں اور ہڈیوں کو گوشت پہنایا۔ پھر روح پھونکی، آنکھ، کان، ناک پیدا کئے ماں کے پیٹ سے سلامتی سے نکالا، پھر کمزوری کو قوت سے بدلا، دن بدن طاقتور اور مضبوط قد آور، زور آور کیا، عمر دی حرکت وسکون کی طاقت دی اسباب اور آلات دئیے اور مخلوق کا سردار بنایا اور ادھر سے ادھر پہنچنے کے ذرائع دئیے۔
سمندروں کی زمین کی مختلف سواریاں عطا فرمائیں عقل سوچ سمجھ تدبر غور کے لیے دل ودماغ عطا فرمائے۔ دنیاوی کام سمجھائے رزق عزت حاصل کرنے لے طریقے کھول دئیے۔ ساتھ ہی آخرت کو سنوارنے کا علم اور دنیاوی علم بھی سکھایا۔
پاک ہے وہ اللہ جو ہرچیز کا صحیح اندازہ کرتا ہے ہر ایک کو ایک مرتبے پر رکھتا ہے۔ شکل و صورت میں بول چال میں امیری فقیری میں عقل وہنر میں بھلائی برائی میں سعادت وشقات میں ہر ایک کو جداگانہ کر دیا۔ تاکہ ہر شخص رب کی بہت سی نشانیاں اپنے میں اور دوسرے میں دیکھ لے۔
مسند احمد میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے تمام زمین سے ایک مٹھی مٹی کی لے کر اس سے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا۔ پس زمین کے مختلف حصوں کی طرح اولاد آدم کی مختلف رنگتیں ہوئیں۔ کوئی سفید کوئی سرخ کوئی سیاہ کوئی خبیث کوئی طیب کوئی خوش خلق کوئی بدخلق وغیرہ ۔ [سنن ابوداود:4693،قال الشيخ الألباني:صحیح]
پھر فرماتا ہے کہ ” اللہ تعالیٰ کی ایک نشانی قدرت یہ بھی ہے کہ اس نے تمہاری ہی جنس سے تمہارے جوڑے بنائے کہ وہ تمہاری بیویاں بنتی ہیں اور تم ان کے خاوند ہوتے ہو۔ یہ اس لیے کہ تمہیں ان سے سکوں و راحت آرام وآسائش حاصل ہو “۔
جیسے ایک اور آیت میں ہے «هُوَ الَّذِي خَلَقَكُمْ مِنْ نَفْسٍ وَاحِدَةٍ وَجَعَلَ مِنْهَا زَوْجَهَا لِيَسْكُنَ إِلَيْهَا» [7-الأعراف:189] ” اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک ہی نفس سے پیدا کیا اور اسی سے اس کی بیویاں پیدا کی تاکہ وہ اس کی طرف راحت حاصل کرے “۔
حواء رضی اللہ عنہا آدم علیہ السلام کی بائیں پسلی سے جو سب سے زیادہ چھوٹی ہے پیدا ہوئی ہیں پس اگر انسان کا جوڑا انسان سے نہ ملتا اور کسی اور جنس سے ان کا جوڑا بندھتا تو موجودہ الفت و رحمت ان میں نہ ہو سکتی۔ یہ پیار اخلاص یک جنسی کی وجہ سے ہے۔
ان میں آپس میں محبت مودت رحمت الفت پیار اخلاص رحم اور مہربانی ڈال دی پس مرد یا تو محبت کی وجہ سے عورت کی خبر گیری کرتا ہے یا غم کھا کر اس کا خیال رکھتا ہے۔ اس لیے کہ اس سے اولاد ہو چکی ہے اس کی پرورش ان دونوں کے میل ملاپ پر موقوف ہے۔
الغرض بہت سی وجوہات رب العلمین نے رکھ دی ہیں۔ جن کے باعث انسان با آرام اپنے جوڑے کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ یہ بھی رب کی مہربانی اور اس کی قدرت کاملہ کی ایک زبردست نشانی ہے۔ ادنٰی غور سے انسان کا ذہن اس تک پہنچ جاتا ہے۔