قرآن مجيد

سورة الشعراء
نَزَلَ بِهِ الرُّوحُ الْأَمِينُ[193]
جسے امانت دار فرشتہ لے کر اترا ہے۔[193]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 192، 193، 194، 195،

مبارک کتاب ٭٭

سورۃ کی ابتداء میں قرآن کریم کا ذکر آیا تھا وہی ذکر پھر تفصیلاً بیان ہو رہا ہے کہ ” یہ مبارک کتاب قرآن کریم اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے اور نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمائی ہے “۔

روح الامین سے مراد جبرائیل علیہ السلام ہیں جن کے واسطے سے یہ وحی سرور رسل علیہ السلام پر اتری ہے۔ جیسے فرمان ہے آیت «قُلْ مَنْ كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيْلَ فَاِنَّهٗ نَزَّلَهٗ عَلٰي قَلْبِكَ بِاِذْنِ اللّٰهِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَھُدًى وَّبُشْرٰى لِلْمُؤْمِنِيْنَ» [2-البقرة:97] ‏‏‏‏ یعنی ” اس قرآن کو بحکم الٰہی جبرائیل علیہ السلام نے تیرے دل پر نازل فرمایا ہے۔ یہ قرآن اگلی تمام الہامی کتابوں کی تصدیق کرنے والا ہے۔ یہ فرشتہ ہمارے ہاں ایسا مکرم ہے کہ اس کا دشمن ہمارا دشمن ہے “۔

مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں جس سے روح الامین بولے اسے زمین نہیں کھاتی۔ اس بزرگ بامرتبہ فرشتے نے جو فرشتوں کا سردار ہے تیرے دل پر اس پاک اور بہتر کلام اللہ کو نازل فرمایا ہے جو ہر طرح کے میل کچیل سے کمی زیادتی سے نقصان اور کجی سے پاک ہے۔ تاکہ تو اللہ کے مخالفین کو گہنگاروں کو اللہ کی سزا سے بچاؤ کرنے کی رہبری کر سکے۔ اور تابع فرمان لوگوں کو اللہ کی مغفرت ورضوان کی خوشخبری پہنچ اس کے۔ یہ کھلی فصیح عربی زبان میں ہے۔ تاکہ ہر شخص سمجھ سکے پڑھ سکے۔ کسی کا عذر باقی نہ رہے اور ہر ایک پر قرآن کریم اللہ کی حجت بن جائے۔

ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضی اللہ عنہم کے سامنے نہایت فصاحت سے ابر کے اوصاف بیان کئے جسے سن کر صحابہ رضی اللہ عنہم کہہ اٹھے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ صلی اللہ علیہ وسلم تو کمال درجے کے فصیح وبلیغ زبان بولتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بھلا میری زبان ایسی پاکیزہ کیوں نہ ہو گی، قرآن بھی تو میری زبان میں اترا ہے فرمان ہے آیت «بِلِسَانٍ عَرَبِيٍّ مُّبِيْنٍ» [26-الشعراء:195] ‏‏‏‏۔ [ضعیف] ‏‏‏‏

امام سفیان ثوری رحمہ اللہ فرماتے ہیں وحی عربی میں اتری ہے یہ اور بات ہے کہ ہر نبی نے اپنی قوم کے لیے ان کی زبان میں ترجمہ کر دیا۔ قیامت کے دن سریانی زبان ہوگی ہاں جنتیوں کی زبان عربی ہوگی۔ [ابن ابی حاتم] ‏‏‏‏