قرآن مجيد

سورة البقرة
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِي حَاجَّ إِبْرَاهِيمَ فِي رَبِّهِ أَنْ آتَاهُ اللَّهُ الْمُلْكَ إِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّيَ الَّذِي يُحْيِي وَيُمِيتُ قَالَ أَنَا أُحْيِي وَأُمِيتُ قَالَ إِبْرَاهِيمُ فَإِنَّ اللَّهَ يَأْتِي بِالشَّمْسِ مِنَ الْمَشْرِقِ فَأْتِ بِهَا مِنَ الْمَغْرِبِ فَبُهِتَ الَّذِي كَفَرَ وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ[258]
کیا تو نے اس شخص کو نہیں دیکھا جس نے ابراہیم سے اس کے رب کے بارے میں جھگڑا کیا، اس لیے کہ اللہ نے اسے حکومت دی تھی، جب ابراہیم نے کہا میرا رب وہ ہے جو زندگی بخشتا اور موت دیتا ہے، اس نے کہا میں زندگی بخشتا اور موت دیتا ہوں۔ ابراہیم نے کہا پھر اللہ تو سورج کو مشرق سے لاتا ہے، پس تو اسے مغرب سے لے آ، تو وہ جس نے کفر کیا تھا حیرت زدہ رہ گیا اور اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔[258]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 258،

ابراہیم علیہ السلام اور نمرود کا آمنا سامنا ٭٭

اس بادشاہ کا نام نمرود بن کنعان بن سام بن نوح علیہ السلام تھا اس کا پایہ تخت بابل تھا اس کے نسب میں کچھ اختلاف بھی ہے، مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں دنیا کی مشرق مغرب کی سلطنت رکھنے والے چار ہوئے جن میں سے دو مومن اور دو کافر، سلیمان بن داؤد علیہ السلام اور ذوالقرنین علیہ السلام، اور کافروں میں نمرود اور بخت نصر،

فرمان ہوتا ہے کہ اے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تم نے اسے نہیں دیکھا، جو ابراہیم علیہ السلام سے وجود باری تعالیٰ میں مباحثہ کرنے لگا، یہ شخص خود اللہ ہونے کا مدعی تھا، جیسا اس کے بعد فرعون نے بھی اپنے والوں میں دعویٰ کیا تھا کہ «مَا عَلِمْتُ لَكُم مِّنْ إِلَـٰهٍ غَيْرِي» [ 28-القصص: 38 ] ‏‏‏‏ میں اپنے سوا کسی کو تمہارا رب نہیں جانتا، چونکہ ایک مدت مدید اور عرصہ بعید سے یہ بادشاہ چلا آتا تھا اس لیے دماغ میں رعونت اور انانیت آ گئی تھی، سرکشی اور تکبر، نخوت اور غرور طبیعت میں سما گیا تھا، بعض لوگ کہتے ہیں چار سو سال تک حکومت کرتا رہا تھا، ابراہیم علیہ السلام سے جب اس نے وجود باری تعالیٰ پر دلیل مانگی تو آپ نے نیست سے ہست اور ہست سے نیست کرنے کی دلیل دی جو ایک بدیہی اور مثل آفتاب روشن دلیل تھی کہ موجودات کا پہلے کچھ نہ ہونا پھر ہونا پھر مٹ جانا کھلی دلیل ہے۔ موجد اور پیدا کرنے والے کے موجود ہونے کی اور وہی اللہ ہے، نمرود نے جواباً کہا کہ یہ تو میں بھی کرتا ہوں، یہ کہہ کر دو شخصوں کو اس نے بلوایا جو واجب القتل تھے، ایک کو قتل کر دیا اور دوسرے کو رہا کر دیا، دراصل یہ جواب اور دعویٰ کس قدر لچر اور بے معنی ہے اس کے بیان کی بھی ضرورت نہیں۔

ابراہیم علیہ السلام نے تو صفات باری میں سے ایک صفت پیدا کرنا اور پھر نیست کر دینا بیان کی تھی اور اس نے نہ تو انہیں پیدا کیا اور نہ ان کی یا اپنی موت حیات پر اسے قدرت، لیکن جہلاء کو بھڑکانے کیلئے اور اپنی علمیت جتانے کیلئے باوجود اپنی غلطی اور مباحثہ کے اصول سے طریقہ فرار کو جانتے ہوئے صرف ایک بات بنا لی۔

ابراہیم علیہ السلام بھی اس کو سمجھ گئے اور آپ نے کند ذہن کے سامنے ایسی دلیل پیش کر دی کہ صورتاً بھی اس کی مشابہت نہ کر سکے، چنانچہ فرمایا کہ جب تو پیدائش اور موت تک کا اختیار رکھتا ہے تو مخلوق پر تصرف تیرا پورا ہونا چاہیئے، میرے اللہ نے تو یہ تصرف کیا کہ سورج کو حکم دے دیا ہے کہ وہ مشرق کی طرف سے نکلا کرے چنانچہ وہ نکل رہا ہے، اب تو اسے حکم دے کہ وہ مغرب کی طرف سے نکلے اس کا کوئی ظاہری ٹوٹا پھوٹا جواب بھی نہ اس سے بن پڑا اور بے زبان ہو کر اپنی عاجزی کا معترف ہو گیا اور اللہ کی حجت اس پر پوری ہو گئی لیکن چونکہ ہدایت نصیب نہ تھی راہ یافتہ نہ ہو سکا، ایسے بدوضع لوگوں کو اللہ کوئی دلیل نہیں سمجھاتا اور وہ حق کے مقابلے میں بغلیں جھانکتے ہی نظر آتے ہیں، ان پر اللہ کا غضب و غصہ اور ناراضگی ہوتی ہے اور اس کیلئے اس جہاں میں بھی سخت عذات ہوتے ہیں،

بعض منطقیوں نے کہا ہے کہ خلیل اللہ نے یہاں ایک واضح دلیل کے بعد دوسری اس سے بھی زیادہ واضح دلیل پیش کر دی، لیکن درحقیت یوں نہیں بلکہ پہلی دلیل دوسری کا مقدمہ تھی اور ان دونوں میں سے نمرود کے دعویٰ کا بطلان بالکل واضح ہو گیا، اصل دلیل پیدائش و موت ہی ہے چونکہ اس کا دعویٰ اس ناسمجھ مشت خاک نے بھی کیا تو لازم تھا کہ جو بنانے بگاڑنے پر نہ صرف قادر ہو بلکہ بناؤ بگاڑ کا بھی خالق ہو اس کی ملکیت پوری طرح اسی کے قبضہ میں ہونی چاہیئے اور جس طرح موت و حیات کے احکام اس کے جاری ہو جاتے ہیں اسی طرح دوسرے احکام بھی جاری ہو جائیں، پھر کیا وجہ ہے کہ سورج جو کہ ایک مخلوق ہے اس کی فرمانبرداری اور اطاعت گزاری نہ کرے اور اس کے کہنے سے مشرق کی بجائے مغرب سے نہ نکلے؟ پس ابراہیم علیہ السلام نے اس پر اس مباحثہ میں کھلا غلبہ پایا اور اسے بالکل لاجواب کر دیا «فالْحَمْدُ لِلَّـه» ۔

حضرت سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ مناظرہ ابراہیم علیہ السلام کے آگ سے نکل آنے کے بعد ہوا تھا اس سے پہلے آپ علیہ السلام کی اس ظالم بادشاہ سے کوئی ملاقات نہیں ہوئی تھی، زید بن اسلم رحمہ اللہ کا قول ہے کہ قحط سالی تھی، لوگ نمرود کے پاس جاتے تھے اور غلہ لے آتے تھے، خلیل اللہ بھی گئے، وہاں یہ مناظرہ ہو گیا بدبخت نے آپ علیہ السلام کو غلہ نہ دیا، آپ علیہ السلام خالی ہاتھ واپس آئے، گھر کے قریب پہنچ کر آپ علیہ السلام نے دونوں بوریوں میں ریت بھر لی کہ گھر والے سمجھیں کچھ لے آئے، گھر آتے ہی بوریاں رکھ کر سو گئے، آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ سارہ اٹھیں بوریوں کو کھولا تو دیکھا کہ عمدہ اناج سے دونوں پر ہیں، کھانا پکا کر تیار کیا، آپ علیہ السلام کی بھی آنکھ کھلی دیکھا کہ کھانا تیار ہے، پوچھا اناج کہاں سے آیا، کہا دو بوریاں جو آپ بھر کر لائے ہیں، انہیں میں سے یہ اناج نکالا تھا، آپ علیہ السلام سمجھ گئے کہ یہ اللہ جل شانہ کی طرف سے برکت اور اس کی رحمت ہے، اس ناہنجار بادشاہ کے پاس اللہ نے ایک فرشتہ بھیجا اس نے آ کر اسے توحید کی دعوت دی لیکن اس نے قبول نہ کی، دوبارہ دعوت دی لیکن انکار کیا تیسری مرتبہ اللہ کی طرف بلایا لیکن پھر بھی یہ منکر ہی رہا۔ اس بار بار کے انکار کے بعد فرشتے نے اس سے کہا اچھا تو اپنا لشکر تیار کر میں بھی اپنا لشکر لے آتا ہوں، نمرود نے بڑا بھاری لشکر تیار کیا اور زبردست فوج کو لے کر سورج نکلنے کے میدان میں آ ڈٹا، ادھر اللہ تعالیٰ نے مچھروں کا ایک دروازہ کھول دیا، بڑے بڑے مچھر اس کثرت سے آئے کہ لوگوں کو سورج بھی نظر نہ آتا تھا، اللہ کی یہ فوج نمرودیوں پر گری اور تھوڑی دیر میں ان کا خون تو کیا ان کا گوشت پوست سب کھا گئی اور سارے کے سارے یہیں ہلاک ہو گئے، ہڈیوں کا ڈھانچہ باقی رہ گیا، انہی مچھروں میں سے ایک نمرود کے نتھنے میں گھس گیا اور چار سو سال تک اس کا دماغ چاٹتا رہا ایسے عذاب میں وہ رہا کہ اس سے موت ہزاروں درجے بہتر تھی اپنا سر دیواروں اور پتھروں پر مارتا پھرتا تھا، ہتھوڑوں سے کچلواتا تھا، یونہی رینگ رینگ کر بدنصیب نے ہلاکت پائی۔ اعاذنا اللہ۔