قرآن مجيد

سورة مريم
قَالَ رَبِّ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلَامٌ وَكَانَتِ امْرَأَتِي عَاقِرًا وَقَدْ بَلَغْتُ مِنَ الْكِبَرِ عِتِيًّا[8]
کہا اے میرے رب! میرے لیے لڑکا کیسے ہوگا جب کہ میری بیوی شروع سے بانجھ ہے اور میں تو بڑھاپے کی آخری حد کو پہنچ گیا ہوں۔[8]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 8، 9،

بشارت قبولیت سن کر ٭٭

حضرت زکریا علیہ السلام اپنی دعا کی قبولیت اور اپنے ہاں لڑکا ہونے کی بشارت سن کر خوشی اور تعجب سے کیفیت دریافت کرنے لگے کہ بظاہر اسباب تو یہ امر مستبعد اور ناممکن معلوم ہوتا ہے۔ دونوں جانب سے حالت محض ناامیدی کی ہے۔ بیوی بانجھ جس سے اب تک اولاد نہیں ہوئی، میں بوڑھا اور بے حد بوڑھا جس کی ہڈیوں میں اب تو گودا بھی نہیں رہا، خشک ٹہنی جیسا ہو گیا ہوں، گھر والی بھی بڑھیا پھوس ہو گئی ہے، پھر ہمارے ہاں اولاد کیسے ہو گی؟ غرض رب العالمین سے کیفیت بوجہ تعجب و خوشی دریافت کی۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں تمام سنتوں کو جانتا ہوں لیکن مجھے یہ معلوم نہیں ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر عصر میں پڑھتے تھے یا نہیں؟ اور نہ یہ معلوم ہے کہ اس لفظ کو «عَتِیاً» پڑھتے تھے یا «عَسِیاً» ۔ [سنن ابوداود:809،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

فرشتے نے جواب دیا کہ یہ تو وعدہ ہو چکا، اسی حالت میں اسی بیوی سے تمہارے ہاں لڑکا ہو گا۔ اللہ کے ذمے یہ کام مشکل نہیں۔ اس سے زیادہ تعجب والا اور اس سے بڑی قدرت والا کام تو تم خود دیکھ چکے ہو اور وہ خود تمہارا وجود ہے، جو کچھ نہ تھا اور اللہ تعالیٰ نے بنا دیا۔ پس جو تمہاری پیدائش پر قادر تھا، وہ تمہارے ہاں اولاد دینے پر بھی قادر ہے۔‏‏‏‏

جیسے فرمان ہے «هَلْ اَتٰى عَلَي الْاِنْسَانِ حِيْنٌ مِّنَ الدَّهْرِ لَمْ يَكُنْ شَيْـــًٔا مَّذْكُوْرًا» [76-الإنسان:1] ‏‏‏‏ یعنی ” یقیناً انسان پر اس کے زمانے کا ایسا وقت بھی گزرا ہے، جس میں وہ کوئی قابل ذکر چیز ہی نہ تھا “۔