قرآن مجيد

سورة مريم
يَا زَكَرِيَّا إِنَّا نُبَشِّرُكَ بِغُلَامٍ اسْمُهُ يَحْيَى لَمْ نَجْعَلْ لَهُ مِنْ قَبْلُ سَمِيًّا[7]
اے زکریا! بے شک ہم تجھے ایک لڑکے کی خوش خبری دیتے ہیں، جس کا نام یحییٰ ہے، اس سے پہلے ہم نے اس کا کوئی ہم نام نہیں بنایا۔[7]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 7،

دعا قبول ہوئی ٭٭

حضرت زکریا علیہ السلام کی دعا قبول ہوتی ہے اور فرمایا جاتا ہے کہ ” آپ علیہ السلام ایک بچے کی خوشخبری سن لیں جس کا نام یحییٰ ہے “۔

جیسے اور آیت میں ہے «هُنَالِكَ دَعَا زَكَرِيَّا رَبَّهُ قَالَ رَبِّ هَبْ لِي مِن لَّدُنكَ ذُرِّيَّةً طَيِّبَةً إِنَّكَ سَمِيعُ الدُّعَاءِ فَنَادَتْهُ الْمَلَائِكَةُ وَهُوَ قَائِمٌ يُصَلِّي فِي الْمِحْرَابِ أَنَّ اللَّـهَ يُبَشِّرُكَ بِيَحْيَىٰ مُصَدِّقًا بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللَّـهِ وَسَيِّدًا وَحَصُورًا وَنَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ» [3-آل عمران:38-39] ‏‏‏‏ ” زکریا علیہ السلام نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اپنے پاس سے بہترین اولاد عطا فرما، بیشک تو دعاؤں کا سننے والا ہے۔‏‏‏‏ فرشتوں نے انہیں آواز دی اور وہ اس وقت کی نماز کی جگہ میں نماز میں کھڑے تھے کہ اللہ تعالیٰ آپ علیہ السلام کو اپنے ایک کلمے کی بشارت دیتا ہے جو سردار ہو گا اور پاکباز ہو گا اور نبی ہوگا اور پورے نیک کار اعلیٰ درجے کے بھلے لوگوں میں سے ہو گا “۔

یہاں فرمایا کہ ان سے پہلے اس نام کا کوئی اور انسان نہیں ہوا۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے مشابہ کوئی اور نہ ہو گا، یہی معنی «سَمِيًّا» کے آیت «هَلْ تَعْلَمُ لَهٗ سَمِيًّا» [19-مريم:65] ‏‏‏‏ میں ہیں۔ یہ معنی بھی بیان کئے گئے ہیں کہ اس سے پہلے کسی بانجھ عورت سے ایسی اولاد نہیں ہوئی۔ زکریا کے ہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی۔ آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ بھی شروع عمر سے بے اولاد تھیں۔ ابراہیم علیہ السلام اور سارہ علیہما السلام نے بھی بچے کے ہونے کی بشارت سن کر بے حد تعجب کیا تھا لیکن ان کے تعجب کی وجہ ان کا بے اولاد ہونا اور بانجھ ہونا نہ تھی۔ بلکہ بہت زیادہ بڑھاپے میں اولاد کا ہونا، یہ تعجب کی وجہ تھی اور زکریا علیہ السلام کے ہاں تو اس پورے بڑھاپے تک کوئی اولاد ہوئی ہی نہ تھی۔

اس لیے خلیل اللہ علیہ السلام نے فرمایا تھا کہ «قَالَ أَبَشَّرْتُمُونِي عَلَىٰ أَن مَّسَّنِيَ الْكِبَرُ فَبِمَ تُبَشِّرُونَ» [15-الحجر:54] ‏‏‏‏ ” مجھے اس انتہائی بڑھاپے میں تم اولاد کی خبر کیسے دے رہے ہو؟ “ ورنہ اس سے تیرہ سال پہلے آپ کے ہاں اسماعیل علیہ السلام ہوئے تھے۔

آپ علیہ السلام کی بیوی صاحبہ نے بھی اس خوشخبری کو سن کر تعجب سے کہا تھا کہ کیا «قَالَتْ يَا وَيْلَتَىٰ أَأَلِدُ وَأَنَا عَجُوزٌ وَهَـٰذَا بَعْلِي شَيْخًا إِنَّ هَـٰذَا لَشَيْءٌ عَجِيبٌ قَالُوا أَتَعْجَبِينَ مِنْ أَمْرِ اللَّـهِ رَحْمَتُ اللَّـهِ وَبَرَكَاتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ إِنَّهُ حَمِيدٌ مَّجِيدٌ» [11-هود:72،73] ‏‏‏‏ ” اس بڑھے ہوئے بڑھاپے میں میرے ہاں اولاد ہو گی؟ ساتھ ہی میرے میاں بھی غایت درجے کے بوڑھے ہیں۔ یہ تو سخت تر تعجب خیز چیز ہے۔ یہ سن کر فرشتوں نے کہا تھا کہ کیا تمہیں امر الٰہی سے تعجب ہے؟ اے ابراہیم علیہ السلام کے گھرانے والو! تم پر اللہ کی رحمتیں اور اس کی برکتیں ہیں۔ اللہ تعریفوں اور بزرگیوں والا ہے “۔