قرآن مجيد

سورة الكهف
نَحْنُ نَقُصُّ عَلَيْكَ نَبَأَهُمْ بِالْحَقِّ إِنَّهُمْ فِتْيَةٌ آمَنُوا بِرَبِّهِمْ وَزِدْنَاهُمْ هُدًى[13]
ہم تجھ سے ان کا واقعہ ٹھیک ٹھیک بیان کرتے ہیں، بے شک وہ چند جوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لائے اور ہم نے انھیں ہدایت میں زیادہ کر دیا۔[13]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 13، 14، 15، 16،

اصحاب کہف کا قصہ ٭٭

یہاں سے تفصیل کے ساتھ اصحاب کہف کا قصہ شروع ہوتا ہے کہ یہ چند نوجوان تھے جو دین حق کی طرف مائل ہوئے اور ہدایت پر آ گئے۔ قریش میں بھی یہی ہوا تھا کہ جوانوں نے تو حق کی آواز پر لبیک کہی تھی لیکن بجز چند کے اور بوڑھے لوگ اسلام کی طرف جرات سے مائل نہ ہوئے۔ کہتے ہیں کہ ان میں سے بعض کے کانوں میں بالے تھے۔ یہ متقی مومن اور راہ یافتہ نوجوانوں کی جماعت تھی، اپنے رب کی وحدانیت کو مانتے تھے، اس کی توحید کے قائل ہو گئے تھے اور روز بروز ایمان و ہدایت میں بڑھ رہے تھے۔ یہ اور اس جیسی اور آیتوں اور احادیث سے استدلال کر کے امام بخاری رحمہ اللہ وغیرہ محدثین کرام کا مذہب ہے کہ ایمان میں زیادتی ہوتی ہے۔ اس میں مرتبے ہیں، یہ کم و بیش ہوتا رہتا ہے۔ یہاں ہے ہم نے انہیں ہدایت میں اور بڑھا دیا اور جگہ ہے آیت «وَالَّذِيْنَ اهْتَدَوْا زَادَهُمْ هُدًى وَّاٰتٰىهُمْ تَقْوٰىهُمْ» [ 47- محمد: 17 ] ‏‏‏‏ ہدایت والوں کی ہدایت بڑھ جاتی ہے الخ اور آیت میں ہے «فَاَمَّا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا فَزَادَتْھُمْ اِيْمَانًا وَّھُمْ يَسْتَبْشِرُوْنَ» [ 9- التوبہ: 124 ] ‏‏‏‏ الخ ایمان والوں کے ایمان کو بڑھاتی ہے الخ۔ اور جگہ ارشاد ہے آیت «لِيَزْدَادُوْٓا اِيْمَانًا مَّعَ اِيْمَانِهِمْ» [ 48- الفتح: 4 ] ‏‏‏‏ تاکہ وہ اپنے ایمان کے ساتھ ہی ایمان میں اور بڑھ جائیں۔ اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔

مذکور ہے کہ یہ لوگ مسیح عیسیٰ بن مریم علیہ السلام کے دین پر تھے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ لیکن بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسیح علیہ السلام کے زمانے سے پہلے کا واقعہ ہے۔ اس کی ایک دلیل یہ بھی ہے کہ اگر یہ لوگ نصرانی ہوتے تو یہود اس قدر توجہ سے نہ ان کے حالات معلوم کرتے نہ معلوم کرنے کی ہدایت کرتے۔ حالانکہ یہ بیان گزر چکا ہے قریشیوں نے اپنا وفد مدینے کے یہود کے علماء کے پاس بھیجا تھا کہ تم ہمیں کچھ ایسی باتیں بتلاؤ کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی آزمائش کر لیں تو انہوں نے کہا کہ تم اصحاب کہف کا اور ذوالقرنین کا واقعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو اور روح کے متعلق سوال کرو، پس معلوم ہوتا ہے کہ یہود کی کتاب میں ان کا ذکر تھا اور انہیں اس واقعہ کا علم تھا، جب یہ ثابت ہوا تو یہ ظاہر ہے کہ یہود کی کتاب نصرانیت سے پہلے کی ہے۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ پھر فرماتا ہے کہ ہم نے انہیں قوم کی مخالفت پر صبر عطا فرمایا اور انہوں نے قوم کی کچھ پرواہ نہ کی بلکہ وطن اور راحت و آرام کو بھی چھوڑ دیا۔ بعض سلف کا بیان ہے کہ یہ لوگ رومی بادشاہ کی اولاد اور روم کے سردار تھے «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔ یہ نوجوان ایک مرتبہ قوم کے ساتھ عید منانے گئے تھے۔ اس زمانے کے بادشاہ کا نام دقیانوس تھا، بڑا سخت اور سرکش شخص تھا، سب کو شرک کی تعلیم کرتا اور سب سے بت پرستی کراتا تھا۔

یہ نوجوان جو اپنے باپ دادوں کے ساتھ اس میلے میں گئے تھے، انہوں نے جب وہاں یہ تماشا دیکھا تو ان کے دل میں خیال آیا کہ بت پرستی محض لغو اور باطل چیز ہے، عبادتیں اور ذبیحے صرف اللہ کے نام پر ہونے چاہئیں جو آسمان و زمین کا خالق مالک ہے۔ پس یہ لوگ ایک ایک کر کے یہاں سے سرکنے لگے، ایک درخت تلے جا کر ان میں سے ایک صاحب بیٹھ گئے دوسرے بھی یہیں آ گئے اور بیٹھ گئے تیسرے بھی آئے چوتھے بھی آئے غرض ایک ایک کر کے سب یہیں جمع ہو گئے حالانکہ ایک دوسرے میں تعارف نہ تھا لیکن ایمان کی روشنی نے ایک دوسرے کو ملا دیا۔ حدیث شریف میں ہے کہ روحیں بھی ایک جمع شدہ لشکر ہیں جو روز ازل میں تعارف والی ہیں وہ یہاں مل جل کر رہتی ہیں اور جو وہیں انجان رہیں ان کا یہاں بھی ان میں اختلاف رہتا ہے۔ [صحیح مسلم:2638] ‏‏‏‏

عرب کہا کرتے ہیں کہ جنسیت ہی میل جول کی علت ہے۔ اب سب خاموش تھے ایک کو ایک سے ڈر تھا کہ اگر میں اپنے ما فی الضمیر کو بتا دوں گا تو یہ دشمن ہو جائیں گے، کسی کو دوسرے کی نسبت اطلاع نہ تھی کہ وہ بھی اس کی طرح قوم کی اس احمقانہ اور مشرکانہ رسم سے بیزار ہے۔ آخر ایک دانا اور جری نوجوان نے کہا کہ دوستو! کوئی نہ کوئی بات تو ضرور ہے کہ لوگوں کے اس عام شغل کو چھوڑ کر تم ان سے یکسو ہو کر یہاں آ بیٹھے ہو میرا تو جی چاہتا ہے کہ ہر شخص اس بات کو ظاہر کر دے جس کی وجہ سے اس نے قوم کو چھوڑا ہے۔ اس پر ایک نے کہا، بھائی بات یہ ہے کہ مجھے تو اپنی قوم کی یہ رسم ایک آنکھ نہیں بھاتی جب کہ آسمان و زمین کا اور ہمارا تمہارا خالق صرف اللہ تعالیٰ ہی ہے تو پھر ہم اس کے سوا دوسرے کی عبادت کیوں کریں؟ یہ سن کر دوسرے نے کہا اللہ کی قسم یہی نفرت مجھے یہاں لائی ہے تیسرے نے بھی یہی کہا۔ جب ہر ایک نے یہی وجہ بیان کی تو سب کے دل میں محبت کی ایک لہر دوڑ گئی اور یہ سب روشن خیال موحد آپس میں سچے دوست اور ماں جائے بھائیوں سے بھی زیادہ ایک دوسرے کے خیرخواہ بن گئے۔ آپس میں اتحاد و اتفاق ہو گیا۔

اب انہوں نے ایک جگہ مقرر کر لی وہیں اللہ واحد کی عبادت کرنے لگے۔ رفتہ رفتہ قوم کو بھی پتہ چل گیا وہ ان سب کو پکڑ کر اس ظالم مشرک بادشاہ کے پاس لے گئے اور شکایت پیش کی۔ بادشاہ نے ان سے پوچھا، انہوں نے نہایت دلیری سے اپنی توحید اور اپنا مسلک بیان کیا بلکہ بادشاہ اور اہل دربار اور کل دنیا کو اس کی دعوت دی، دل مضبوط کر لیا اور صاف کہہ دیا کہ ہمارا رب وہی ہے جو آسمان و زمین کا مالک و خالق ہے۔ ناممکن ہے کہ ہم اس کے سوا کسی اور کو معبود بنائیں، ہم سے یہ کبھی نہ ہو سکے گا کہ اس کے سوا کسی اور کو پکاریں۔ اس لیے کہ شرک نہایت باطل چیز ہے ہم اس کام کو کبھی نہیں کرنے کے۔ یہ نہایت ہی بیجا بات اور لغو حرکت اور جھوٹی راہ ہے۔ یہ ہماری قوم مشرک ہے اللہ کے سوا دوسروں کی پکار اور ان کی عبادت میں مشغول ہے جس کی کوئی دلیل یہ پیش نہیں کر سکتے، پس یہ ظالم اور کاذب ہیں۔ کہتے ہیں کہ ان کی اس صاف گوئی اور حق گوئی سے بادشاہ بہت بگڑا انہیں دھمکایا ڈرایا اور حکم دیا کہ ان کے لباس اتار لو اور اگر یہ باز نہ آئیں گے تو میں انہیں سخت سزا دوں گا۔ اب ان لوگوں کے دل اور مضبوط ہو گئے لیکن یہ انہیں معلوم ہو گیا کہ یہاں رہ کر ہم دینداری پر قائم نہیں رہ سکتے، اس لیے انہوں نے قوم، وطن، دیس اور رشتے کنبے کو چھوڑنے کا ارادہ پختہ کر لیا۔


یہی حکم بھی ہے کہ جب انسان دین کا خطرہ محسوس کرے اس وقت ہجرت کر جائے۔ حدیث میں ہے کہ انسان کا بہترین مال ممکن ہے کہ بکریاں ہوں جنہیں لے کر دامن کوہ میں اور مرغزاوں میں رہے سہے اور اپنے دین کے بچاؤ کی خاطر بھاگتا پھرے۔ [صحیح بخاری:19] ‏‏‏‏

پس ایسے حال میں لوگوں سے الگ تھلگ ہو جانا امر مشروع ہے۔ ہاں اگر ایسی حالت نہ ہو، دین کی بربادی کا خوف نہ ہو تو پھر جنگلوں میں نکل جانا مشروع نہیں کیونکہ جمعہ جماعت کی فضیلت ہاتھ سے جاتی رہتی ہے۔ جب یہ لوگ دین کے بچاؤ کے لیے اتنی اہم قربانی پر آمادہ ہو گئے تو ان پر رب رحمت نازل ہوئی۔ فرما دیا گیا کہ ٹھیک ہے جب تم ان کے دین سے الگ ہو گئے تو بہتر ہے کہ جسموں سے بھی ان سے جدا ہو جاؤ۔ جاؤ تم کسی غار میں پناہ حاصل کرو تم پر تمہارے رب کی رحمت کی چھاؤں ہو گی، وہ تمہیں تمہارے دشمن کی نگاہوں سے چھپا لے گا اور تمہارے کام میں آسانی اور راحت مہیا فرمائے گا۔ پس یہ لوگ موقعہ پا کر یہاں سے بھاگ نکلے اور پہاڑ کے غار میں چھپ رہے۔

بادشاہ اور قوم نے ہر چندان کی تلاش کی لیکن کوئی پتہ نہ چلا، اللہ نے ان کے غار کو اندھیرے میں چھپا دیا۔ دیکھئیے یہی بلکہ اس سے بہت زیادہ تعجب خیز واقعہ ہمارے نبی محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پیش آیا۔ آپ مع اپنے رفیق خاص یار غار ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہما کے غار ثور میں جا چھپے، مشرکین نے بہت کچھ دوڑ دھوپ کی، تگ و دو میں کوئی کمی نہ کی، لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں پوری تلاش اور سخت کوشش کے باوجود نہ ملے، اللہ نے ان کی بینائی چھین لی۔ آس پاس سے گزرتے تھے، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھتے تھے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم موجود ہیں اور انہیں دکھائی نہیں دیتے۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہما پریشان حال ہو کر عرض کرتے ہیں کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم اگر کسی نے اپنے پیر کی طرف بھی نظر ڈال لی تو ہم دیکھ لیے جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اطمینان سے جواب دیا کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ ان دو کے ساتھ تیرا کیا خیال ہے جن کا تیسرا خود اللہ تعالیٰ ہے۔ [صحیح بخاری:3922] ‏‏‏‏

قرآن فرماتا ہے کہ «إِلَّا تَنصُرُوهُ فَقَدْ نَصَرَهُ اللَّـهُ إِذْ أَخْرَجَهُ الَّذِينَ كَفَرُوا ثَانِيَ اثْنَيْنِ إِذْ هُمَا فِي الْغَارِ إِذْ يَقُولُ لِصَاحِبِهِ لَا تَحْزَنْ إِنَّ اللَّـهَ مَعَنَا فَأَنزَلَ اللَّـهُ سَكِينَتَهُ عَلَيْهِ وَأَيَّدَهُ بِجُنُودٍ لَّمْ تَرَوْهَا وَجَعَلَ كَلِمَةَ الَّذِينَ كَفَرُوا السُّفْلَىٰ وَكَلِمَةُ اللَّـهِ هِيَ الْعُلْيَا وَاللَّـهُ عَزِيزٌ حَكِيمٌ» [ 9-التوبہ: 40 ] ‏‏‏‏ اگر تم میرے نبی کی امداد نہ کرو تو کیا ہوا؟ جب کافروں نے اسے نکال دیا، میں نے خود اس امداد کی جب کہ وہ دو میں دوسرا تھا، جب وہ دونوں غار میں تھے، جب وہ اپنے ساتھی سے کہہ رہا تھا کہ غمگین نہ ہو اللہ ہمارے ساتھ ہے۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی طرف سے سکون اس پر نازل فرمایا اور ایسے لشکر سے اس کی مدد کی جسے تم نہ دیکھ سکتے تھے آخر اس نے کافروں کی بات پست کر دی اور اپنا کلمہ بلند فرمایا۔ اللہ عزت و حکمت والا ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ یہ واقعہ اصحاب کہف کے واقعہ سے بھی عجیب تر اور انوکھا ہے۔ ایک قول یہ بھی ہے کہ ان نوجوانوں کو قوم اور بادشاہ نے پا لیا، جب غار میں انہیں دیکھ لیا تو کہا بس ہم تو خود ہی یہی چاہتے تھے، چنانچہ انہوں نے اس کا منہ ایک دیوار سے بند کر دیا کہ یہیں مر جائیں لیکن یہ قول تامل طلب ہے۔ قرآن کا فرمان ہے کہ صبح شام ان پر دھوپ آتی جاتی ہے وغیرہ۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔