قرآن مجيد

سورة الكهف
ثُمَّ بَعَثْنَاهُمْ لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَى لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا[12]
پھر ہم نے انھیں اٹھایا، تا کہ ہم معلوم کریں دونوں گروہوں میں سے کون وہ مدت زیادہ یاد رکھنے والا ہے جو وہ ٹھہرے۔[12]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 9، 10، 11، 12،

اصحاف کہف ٭٭

اصحاف کہف کا قصہ اجمال کے ساتھ بیان ہو رہا ہے پھر تفصیل کے ساتھ بیان ہو گا۔ فرماتا ہے کہ وہ واقعہ ہماری قدرت کے بےشمار واقعات میں سے ایک نہایت معمولی واقعہ ہے۔ اس سے بڑے بڑے نشان روز مرہ تمہارے سامنے ہیں۔ آسمان و زمین کی پیدائش، رات دن کا آنا جانا، سورج چاند کی اطاعت گزاری وغیرہ قدرت کی ان گنت نشانیاں ہیں جو بتلا رہی ہیں کہ اللہ کی قدرت بے انداز ہے، وہ ہر چیز پر قادر ہے، اس پر کوئی کام مشکل نہیں۔ اصحاب کہف سے تو کہیں زیادہ تعجب خیز اور اہم نشان قدرت تمہارے سامنے دن رات موجود ہیں، کتاب و سنت کا جو علم میں نے تجھے عطا فرمایا ہے، وہ اصحاب کہف کی شان سے کہیں زیادہ ہے۔ بہت سی حجتیں میں نے اپنے بندوں پر اصحاب کہف سے زیادہ واضح کر دی ہیں۔ کہف کہتے ہیں پہاڑی غار کو، وہیں یہ نوجوان چھپ گئے تھے۔

رقیم یا توایلہ کے پاس کی وادی کا نام ہے یا ان کی اس جگہ کی عمارت کا نام ہے یا کسی آبادی کا نام ہے یا اس پہاڑ کا نام ہے، اس پہاڑ کا نام نجلوس بھی آیا ہے، غار کا نام حیزوم کہا گیا ہے اور ان کے کتے کا نام حمران بتایا گیا ہے۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں سارے قرآن کو میں جانتا ہوں لیکن لفظ «حنان» اور لفظ «اواہ» اور لفظ «رَّقِيمِ» کو۔ مجھے نہیں معلوم کہ «رَّقِيمِ» کسی کتاب کا نام ہے یا کسی بنا کا۔

اور روایت میں آپ سے مروی ہے کہ وہ کتاب ہے۔ حضرت سعید بن جبیر رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ یہ پتھر کی ایک لوح تھی جس پر اصحاب کہف کا قصہ لکھ کر غار کے دروازے پر اسے لگا دیا گیا تھا۔ حضرت عبدالرحمٰن کہتے ہیں قرآن میں ہے «كِتَابٌ مَّرْقُومٌ» [ 83-المطففين: 9 ] ‏‏‏‏ پس آیت کے ظاہری الفاظ تو اس کی تائید کرتے ہیں اور یہی امام ابن جریر کا مختار قول ہے کہ «رَّقِيمِ» فعیل کے وزن پر مرقوم کے معنی میں ہے جیسے مقتول قتیل اور مجروح جریح۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

یہ نوجوان اپنے دین کے بچاؤ کیلئے اپنی قوم سے بھاگ کھڑے ہوئے تھے کہ کہیں وہ انہیں دین سے بہکا نہ دیں، ایک پہاڑ کے غار میں گھس گئے اور اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ ہمیں اپنی جانب سے رحمت عطا فرما، ہمیں اپنی قوم سے چھپائے رکھ، ہمارے اس کام میں اچھائی کا انجام کر۔ حدیث کی ایک دعا میں ہے کہ اے اللہ جو فیصلہ تو ہمارے حق میں کرے، اسے انجام کے لحاظ سے بھلا کر۔ مسند میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی دعا میں عرض کرتے کہ اے اللہ ہمارے تمام کاموں کا انجام اچھا کر اور ہمیں دنیا کی رسوائی اور آخرت کے عذابوں سے بچا لے۔ [مسند احمد:181/4:ضعیف] ‏‏‏‏

یہ غار میں جا کر جو پڑ کر سوئے تو برسوں گزر گئے، پھر ہم نے انہیں بیدار کیا، ایک صاحب درہم لے کر بازار سے سودا خریدنے چلے، جیسے کہ آگے آ رہا ہے۔ یہ اس لیے کہ انہیں وہاں کتنی مدت گزری، اسے دونوں گروہوں میں سے کون زیادہ یاد رکھنے والا ہے؟ اسے ہم بھی معلوم کریں۔ «أَمَدً» کے معنی عدد یعنی گنتی کے ہیں اور کہا گیا ہے کہ غایت کے معنی میں بھی یہ لفظ آیا ہے جیسے کہ عرب کے شاعروں نے اپنے شعروں میں اسے غایت کے معنی میں باندھا ہے۔