قرآن مجيد

سورة الإسراء/بني اسرائيل
تُسَبِّحُ لَهُ السَّمَاوَاتُ السَّبْعُ وَالْأَرْضُ وَمَنْ فِيهِنَّ وَإِنْ مِنْ شَيْءٍ إِلَّا يُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَلَكِنْ لَا تَفْقَهُونَ تَسْبِيحَهُمْ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا[44]
ساتوں آسمان اور زمین اس کی تسبیح کرتے ہیں اور وہ بھی جو ان میں ہیں اور کوئی بھی چیز نہیں مگر اس کی حمد کے ساتھ تسبیح کرتی ہے اور لیکن تم ان کی تسبیح نہیں سمجھتے۔ بے شک وہ ہمیشہ سے بے حد بردبار، نہایت بخشنے والا ہے۔[44]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 44،

سبحان العلی الاعلی ٭٭

ساتوں آسمان و زمین اور ان میں بسنے والی کل مخلوق اس کی قدوسیت، تسبیح، تنزیہ، تعظیم، جلالت، بزرگی، بڑائی، پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے اور مشرکین جو نکمے اور باطل اوصاف ذات حق کے لیے مانتے ہیں، ان سے یہ تمام مخلوق برات کا اظہار کرتی ہے اور اس کی الوہیت اور ربوبیت میں اسے واحد اور لا شریک مانتی ہے۔ ہر ہستی اللہ کی توحید کی زندہ شہادت ہے۔ ان نالائق لوگوں کے اقوال سے مخلوق تکلیف میں ہے۔ قریب ہے کہ آسمان پھٹ جائے، زمین دھنس جائے، پہاڑ ٹوٹ جائیں۔

طبرانی میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مقام ابراہیم اور زمزم کے درمیان سے جبرائیل و میکائیل مسجد اقصی تک شب معراج میں لے گئے، جبرائیل آپ کے دائیں تھے اور میکائیل بائیں۔ آپ کو ساتوں آسمان تک اڑا لے گئے وہاں سے آپ لوٹے۔ آپ فرماتے ہیں کہ میں نے بلند آسمانوں میں بہت سی تسبیحات کے ساتھ یہ تسبیح سنی کہ «سَبَّحَتْ السَّمَاوَات الْعُلَى مِنْ ذِي الْمَهَابَة مُشْفِقَات لِذِي الْعُلُوّ بِمَا عَلَا سُبْحَان الْعَلِيّ الْأَعْلَى سُبْحَانه وَتَعَالَى» ‏‏‏‏ [طبرانی:243:اسنادہ ضعیف] ‏‏‏‏

مخلوق میں سے ہر ایک چیز اس کی پاکیزگی اور تعریف بیان کرتی ہے۔ لیکن اے لوگو تم ان کی تسبیح کو نہیں سمجھتے اس لیے کہ وہ تمہاری زبان میں نہیں۔ حیوانات، نباتات، جمادات سب اس کے تسبیح خواں ہیں۔

سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے صحیح بخاری میں ثابت ہے کہ کھانا کھاتے میں کھانے کی تسبیح ہم سنتے رہتے تھے۔ [صحیح بخاری:3579] ‏‏‏‏

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مٹھی میں چند کنکریاں لیں، میں نے خود سنا کہ وہ شہد کی مکھیوں کی بھنبھناہٹ کی طرح تسبیح باری کر رہی تھیں۔ اسی طرح سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں بھی۔ [مسند بزار:2413] ‏‏‏‏

یہ حدیث صحیح میں اور مسندوں میں مشہور ہے۔ کچھ لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی اونٹنیوں اور جانوروں پر سوار کھڑے ہوئے دیکھ کر فرمایا کہ سواری سلامتی کے ساتھ لو اور پھر اچھائی سے چھوڑ دیا کرو، راستوں اور بازاروں میں اپنی سواریوں کو لوگوں سے باتیں کرنے کی کرسیاں نہ بنا لیا کرو۔ سنو بہت سی سواریاں اپنے سواروں سے بھی زیادہ ذکر اللہ کرنے والی اور ان سے بھی بہتر و افضل ہوتی ہیں۔ [مسند احمد:440/3:ضعیف] ‏‏‏‏

سنن نسائی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مینڈک کے مار ڈالنے کو منع فرمایا اور فرمایا اس کا بولنا تسبیح الٰہی ہے۔ [طبرانی اوسط:3728:ضعیف] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ «لَآ اِلٰهَ اِلَّا اﷲُ» ‏‏‏‏کا کلمہ اخلاص کہنے کے بعد ہی کسی کی نیکی قابل قبول ہوتی ہے۔ «الْحَمْدُ لِلَّـهِ» کلمہ شکر ہے اس کا نہ کہنے والا اللہ کا ناشکرا ہے۔ «اﷲُ اَکْبَرُ» زمین و آسمان کی فضا بھر دیتا ہے، «سُبْحَانَ اﷲِ» کا کلمہ مخلوق کی تسبیح ہے۔ اللہ نے کسی مخلوق کو تسبیح اور نماز کے اقرار سے باقی نہیں چھوڑا۔ جب کوئی «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ اِلَّا بِاﷲِ» پڑھتا ہے تو اللہ فرماتا ہے میرا بندہ مطیع ہوا اور مجھے سونپا۔

مسند احمد میں ہے کہ ایک اعرابی طیالسی جبہ پہنے ہوئے جس میں ریشمی کف اور ریشمی گھنڈیاں تھیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا کہ اس شخص کا ارادہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ چرواہوں کے لڑکوں کو اونچا کرے اور سرداروں کے لڑکوں کو ذلیل کرے۔ آپ کو غصہ آگیا اور اس کا دامن گھسیٹتے ہوئے فرمایا کہ تجھے میں جانورں کا لباس پہنے ہوئے تو نہیں دیکھتا؟

پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم واپس چلے آئے اور بیٹھ کر فرمانے لگے کہ نوح علیہ السلام نے اپنی وفات کے وقت اپنے بچوں کو بلا کر فرمایا کہ میں تمہیں بطور وصیت کے دو حکم دیتا ہوں اور دو ممانعت۔ ایک تو میں تمہیں اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنے سے منع کرتا ہوں دوسرے تکبر سے روکتا ہوں۔

پہلا حکم تو تمہیں یہ کرتا ہوں کہ «لا الہ الا اللہ» کہتے رہو اس لیے کہ اگر آسمان اور زمین اور ان کی تمام چیزیں ترازو کے پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے میں صرف یہی کلمہ ہو تو بھی یہی کلمہ وزنی رہے گا۔ سو اگر تمام آسمان و زمین ایک حلقہ بنا دئے جائیں اور ان پر اس کو رکھ دیا جائے تو وہ انہیں پاش پاش کر دے، دوسرا حکم میرا «‏‏‏‏سُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ» ‏‏‏‏ پڑھنے کا ہے کہ یہ ہر چیز کی نماز ہے اور اسی کی وجہ سے ہر ایک کو رزق دیا جاتا ہے۔
[مسند احمد:169/2-225:صحیح] ‏‏‏‏

ابن جریر میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا آؤ میں تمہیں بتلاؤں کہ نوح علیہ السلام نے اپنے لڑکے کو کیا حکم دیا فرمایا کہ پیارے بچے میں تمہیں حکم دیتا ہوں کہ سبحان اللہ کہا کرو، یہ کل مخلوق کی تسبیح ہے اور اسی سے مخلوق کو روزی دی جاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ہر چیز اس کی تسبیح و حمد بیان کرتی ہے اس کی اسناد بوجہ ربذی راوی کے ضعیف ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:22325::ضعیف] ‏‏‏‏

عکرمہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں ستون، درخت، دروازوں کی چولیں، ان کے کھلنے اور بند ہونے کی آواز، پانی کی کھڑکھڑاہٹ یہ سب تسبیح الٰہی ہے۔ اللہ فرماتا ہے کہ ہر چیز حمد و ثنا کے بیان میں مشغول ہے۔ ابراہیم کہتے ہیں طعام بھی تسبیح خوانی کرتا ہے سورۃ الحج کی آیت بھی اس کی شہادت دیتی ہے۔ اور مفسرین کہتے ہیں کہ ہر ذی روح چیز تسبیح خواں ہے۔ جیسے حیوانات اور نباتات۔

ایک مرتبہ حسن رحمہ اللہ کے پاس خوان آیا تو ابویزید قاشی نے کہا کہ اے ابوسعید کیا یہ خوان بھی تسبیح گو ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں تھا۔ مطلب یہ ہے کہ جب تک تر لکڑی کی صورت میں تھا تسبیح گو تھا جب کٹ کر سوکھ گیا تسبیح جاتی رہی۔ اس قول کی تائید میں اس حدیث سے بھی مدد لی جا سکتی ہے

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گزرتے ہیں فرماتے ہیں انہیں عذاب کیا جا رہا ہے اور کسی بڑی چیز میں نہیں ایک تو پیشاب کے وقت پردے کا خیال نہیں کرتا تھا اور دوسرا چغل خور تھا، پھر آپ نے ایک تر ٹہنی لے کر اس کے دو ٹکڑے کرکے دونوں قبروں پر گاڑ دئے اور فرمایا کہ شاید جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان کے عذاب میں تخفیف رہے۔ [صحیح بخاری:218] ‏‏‏‏ اس سے بعض علماء نے کہا ہے کہ جب تک یہ تر رہیں گی تسبیح پڑھتی رہیں گی جب خشک ہو جائیں گی تسبیح بند ہو جائے گی «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

اللہ تعالیٰ حلیم و غفور ہے اپنے گنہگاروں کو سزا کرنے میں جلدی نہیں کرتا، تاخیر کرتا ہے، ڈھیل دیتا ہے، پھر بھی اگر کفر و فسق پر اڑا رہے تو اچانک عذاب مسلط کر دیتا ہے۔ بخاری و مسلم میں ہے اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت دیتا ہے، پھر جب مواخذہ کرتا ہے تو نہیں چھوڑتا۔ دیکھو قرآن میں ہے کہ «وَكَذَٰلِكَ أَخْذُ رَبِّكَ إِذَا أَخَذَ الْقُرَىٰ وَهِيَ ظَالِمَةٌ ۚ إِنَّ أَخْذَهُ أَلِيمٌ شَدِيدٌ» ‏‏‏‏ [11-هود:102] ‏‏‏‏ ” جب تیرا رب کسی بستی کے لوگوں کو ان کے مظالم پر پکڑتا ہے تو پھر ایسی ہی پکڑ ہوتی ہے “ [صحیح بخاری:4686] ‏‏‏‏ الخ

اور آیت میں ہے کہ «وَكَأَيِّن مِّن قَرْيَةٍ أَمْلَيْتُ لَهَا وَهِيَ ظَالِمَةٌ ثُمَّ أَخَذْتُهَا وَإِلَيَّ الْمَصِيرُ» [22-الحج:48] ‏‏‏‏ ” بہت سی ظالم بستیوں کو ہم نے مہلت دی پھر آخر پکڑلیا۔ “

اور آیت میں ہے ” ہاں جو گناہوں سے رک جائے، ان سے ہٹ جائے، توبہ کرے تو اللہ بھی اس پر رحم اور مہربانی کرتا ہے۔ “

جیسے آیت قرآن میں ہے «وَمَن يَعْمَلْ سُوءًا أَوْ يَظْلِمْ نَفْسَهُ ثُمَّ يَسْتَغْفِرِ اللَّـهَ يَجِدِ اللَّـهَ غَفُورًا رَّحِيمًا» ‏‏‏‏ [4-النساء:110] ‏‏‏‏ ” جو شخص برائی کرے یا اپنی جان پر ظلم کرے؟ پھر استغفار کرے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔ “

سورۃ فاطر کے آخر کی آیتوں «إِنَّ اللَّـهَ يُمْسِكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ أَن تَزُولَا ۚ وَلَئِن زَالَتَا إِنْ أَمْسَكَهُمَا مِنْ أَحَدٍ مِّن بَعْدِهِ ۚ إِنَّهُ كَانَ حَلِيمًا غَفُورًا * وَأَقْسَمُوا بِاللَّـهِ جَهْدَ أَيْمَانِهِمْ لَئِن جَاءَهُمْ نَذِيرٌ لَّيَكُونُنَّ أَهْدَىٰ مِنْ إِحْدَى الْأُمَمِ ۖ فَلَمَّا جَاءَهُمْ نَذِيرٌ مَّا زَادَهُمْ إِلَّا نُفُورًا * اسْتِكْبَارًا فِي الْأَرْضِ وَمَكْرَ السَّيِّئِ ۚ وَلَا يَحِيقُ الْمَكْرُ السَّيِّئُ إِلَّا بِأَهْلِهِ ۚ فَهَلْ يَنظُرُونَ إِلَّا سُنَّتَ الْأَوَّلِينَ ۚ فَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَبْدِيلًا ۖ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّتِ اللَّـهِ تَحْوِيلًا * أَوَلَمْ يَسِيرُوا فِي الْأَرْضِ فَيَنظُرُوا كَيْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَكَانُوا أَشَدَّ مِنْهُمْ قُوَّةً ۚ وَمَا كَانَ اللَّـهُ لِيُعْجِزَهُ مِن شَيْءٍ فِي السَّمَاوَاتِ وَلَا فِي الْأَرْضِ ۚ إِنَّهُ كَانَ عَلِيمًا قَدِيرًا» [35-فاطر:41-44] ‏‏‏‏ میں یہی بیان ہے۔