قرآن مجيد

سورة النحل
وَعَلَى اللَّهِ قَصْدُ السَّبِيلِ وَمِنْهَا جَائِرٌ وَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ[9]
اور سیدھا راستہ اللہ ہی پر (جا پہنچتا) ہے اور ان میں سے کچھ (راستے) ٹیڑھے ہیں اور اگر وہ چاہتا تو ضرور تم سب کو ہدایت دے دیتا۔[9]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 9،

تقویٰ بہترین زاد راہ ہے ٭٭

دنیوی راہیں طے کرنے کے اسباب بیان فرما کر اب دینی راہ چلنے کے اسباب بیان فرماتا ہے۔ محسوسات سے معنویات کی طرف رجوع کرتا ہے قرآن میں اکثر بیانات اس قسم کے موجود ہیں سفر حج کے توشہ کا ذکر کر کے تقوے کے توشے کا جو آخرت میں کام دے بیان ہوا ہے ظاہری لباس کا ذکر فرما کر لباس تقویٰ کی اچھائی بیان کی ہے اسی طرح یہاں حیوانات سے دنیا کے کٹھن راستے اور دراز سفر طے ہونے کا بیان فرما کر آخرت کے راستے دینی راہیں بیان فرمائیں کہ سچا راستہ اللہ سے ملانے والا ہے رب کی سیدھی راہ وہی ہے اسی پر چلو دوسرے راستوں پر نہ چلو ورنہ بہک جاؤ گے اور سیدھی راہ سے الگ ہو جاؤ گے۔

فرمایا ” میری طرف پہنچنے کی سیدھی راہ یہی ہے جو میں نے بتائی ہے “۔ طریق جو اللہ سے ملانے والا ہے اللہ نے ظاہر کر دیا ہے اور وہ دین اسلام ہے جسے اللہ نے واضح کر دیا ہے اور ساتھ ہی دوسرے راستوں کی گمراہی بھی بیان فرما دی ہے۔ پس سچا راستہ ایک ہی ہے جو کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے باقی اور راہیں غلط راہیں ہیں، حق سے الگ تھلگ ہیں، لوگوں کی اپنی ایجاد ہیں جیسے یہودیت نصرانیت مجوسیت وغیرہ۔

پھر فرماتا ہے کہ «‏‏‏‏وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ لَجَعَلَ النَّاسَ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَا يَزَالُونَ مُخْتَلِفِينَ إِلَّا مَنْ رَحِمَ رَبُّكَ وَلِذَلِكَ خَلَقَهُمْ وَتَمَّتْ كَلِمَةُ رَبِّكَ لَأَمْلَأَنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ» [11-هود:118-119] ‏‏‏‏ ” ہدایت رب کے قبضے کی چیز ہے اگر چاہے تو روئے زمین کے لوگوں کو نیک راہ پر لگا دے زمین کے تمام باشندے مومن بن جائیں سب لوگ ایک ہی دین کے عامل ہو جائیں لیکن یہ اختلاف باقی ہی رہے گا مگر جس پر اللہ رحم فرمائے۔ اسی کے لیے انہیں پیدا کیا ہے تیرے رب کی بات پوری ہو کر ہی رہے گی کہ جنت دوزخ انسان سے بھر جائے “۔