قرآن مجيد

سورة النحل
وَالْخَيْلَ وَالْبِغَالَ وَالْحَمِيرَ لِتَرْكَبُوهَا وَزِينَةً وَيَخْلُقُ مَا لَا تَعْلَمُونَ[8]
اور گھوڑے اور خچر اور گدھے، تاکہ تم ان پر سوار ہو اور زینت کے لیے، اور وہ پیدا کرے گا جو تم نہیں جانتے۔[8]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 8،

سواری کے جانوروں کی حرمت ٭٭

اپنی ایک اور نعمت بیان فرما رہا ہے کہ ” زینت کے لیے اور سواری کے لیے اس نے گھوڑے خچر اور گدھے پیدا کئے ہیں بڑا مقصد ان جانوروں کی پیدائش سے انسان کا ہی فائدہ ہے “۔

انہیں اور چوپایوں پر فضیلت دی اور علیحدہ ذکر کیا اس وجہ سے بعض علماء نے گھوڑے کے گوشت کی حرمت کی دلیل اس آیت سے لی ہے۔ جیسے امام ابوحنیفہ اور ان کی موافقت کرنے والے فقہاء کہتے ہیں کہ خچر اور گدھے کے ساتھ گھوڑے کا ذکر ہے اور پہلے کے دونوں جانور حرام ہیں اس لیے یہ بھی حرام ہوا۔ چنانچہ خچر اور گدھے کی حرمت احادیث میں آئی ہے اور اکثر علماء کا مذہب بھی ہے۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے ان تینوں کی حرمت آئی ہے۔ وہ فرماتے ہیں کہ اس آیت سے پہلے کی آیت میں چوپایوں کا ذکر کر کے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” انہیں تو کھاتے ہو “ پس یہ تو ہوئے کھانے کے جانور اور ان تینوں کا بیان کرکے فرمایا کہ ” ان پر تم سواری کرتے ہو “، پس یہ ہوئے سواری کے جانور۔‏‏‏‏

مسند کی حدیث میں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھوڑوں کے خچروں کے اور گدھوں کے گوشت کو منع فرمایا ہے [سنن ابوداود:3790،قال الشيخ الألباني:ضعیف] ‏‏‏‏ لیکن اس کے راویوں میں ایک راوی صالح ابن یحییٰ بن مقدام ہیں جن میں کلام ہے۔

مسند کی اور حدیث میں مقدام بن معدی کرب سے منقول ہے کہ ہم سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ساتھ صائقہ کی جنگ میں تھے، میرے پاس میرے ساتھی گوشت لائے، مجھ سے ایک پتھر مانگا میں نے دیا۔ انہوں نے فرمایا ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ غزوہ خیبر میں تھے لوگوں نے یہودیوں کے کھیتوں پر جلدی کر دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے حکم دیا کہ لوگوں میں ندا کر دوں کہ نماز کے لیے آ جائیں اور مسلمانوں کے سوا کوئی نہ آئے ۔ پھر فرمایا کہ اے لوگو! تم نے یہودیوں کے باغات میں گھسنے کی جلدی کی، سنو معاہدہ کا مال بغیر حق کے حلال نہیں اور پالتو گدھوں کے اور گھوڑوں کے اور خچروں کے گوشت اور ہر ایک کچلیوں والا درندہ اور ہر ایک پنجے سے شکار کھلینے والا پرندہ حرام ہے ۔ [مسند احمد:89/4:ضعیف] ‏‏‏‏

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ممانعت یہود کے باغات سے شاید اس وقت تھی جب ان سے معاہدہ ہو گیا۔ پس اگر یہ حدیث صحیح ہوتی تو بیشک گھوڑے کی حرمت کے بارے میں تو نص تھی لیکن اس میں بخاری و مسلم کی حدیث کے مقابلے کی قوت نہیں جس میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پالتو گدھوں کے گوشت کو منع فرما دیا اور گھوڑوں کے گوشت کی اجازت دی ۔ [صحیح بخاری:4219] ‏‏‏‏

اور حدیث میں ہے کہ ہم نے خیبر والے دن گھوڑے اور خچر اور گدھے ذبح کئے تو ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خچر اور گدھے کے گوشت سے تو منع کردیا لیکن گھوڑے کے گوشت سے نہیں روکا ۔ [سنن ابوداود:3789،قال الشيخ الألباني:صحیح] ‏‏‏‏

صحیح مسلم شریف میں اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم نے مدینے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں گھوڑا ذبح کیا اور اس کا گوشت کھایا ۔ [صحیح بخاری:5510] ‏‏‏‏ پس یہ سب سے بڑی سب سے قوی اور سب سے زیادہ ثبوت والی حدیث ہے اور یہی مذہب جمہور علماء کا ہے۔ مالک، شافعی، احمد، رحمہ اللہ علیہم ان کے سب ساتھی اور اکثر سلف و کلف یہی کہتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے گھوڑوں میں وحشت اور جنگلی پن تھا اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کے لیے اسے مطیع کردیا۔‏‏‏‏ وہب نے اسرائیلی روایتوں میں بیان کیا ہے کہ جنوبی ہوا سے گھوڑے پیدا ہوتے ہیں۔ «وَاللهُ اَعْلَمُ» ۔

ان تینوں جانوروں پر سواری لینے کا جواز تو قرآن کے لفظوں سے ثابت ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو ایک خچر ہدیے میں دیا گیا تھا جس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سواری کرتے تھے [صحیح بخاری:1481] ‏‏‏‏ ہاں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ گھوڑوں کو گدھیوں سے ملایا جائے۔ یہ ممانعت اس لیے ہے کہ نسل منقطع نہ ہو جائے۔

دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت دیں تو ہم گھوڑے اور گدھی کے ملاپ سے خچر لیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر سوار ہوں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کام وہ کرتے ہیں جو علم سے کورے ہیں ۔ [مسند احمد:311/4:صحیح لغیره] ‏‏‏‏