قرآن مجيد

سورة يوسف
اذْهَبُوا بِقَمِيصِي هَذَا فَأَلْقُوهُ عَلَى وَجْهِ أَبِي يَأْتِ بَصِيرًا وَأْتُونِي بِأَهْلِكُمْ أَجْمَعِينَ[93]
میری یہ قمیص لے جائو اور اسے میرے باپ کے چہرے پر ڈال دو، وہ بینا ہو جائے گا اور اپنے گھر والوں کو، سب کو میرے پاس لے آؤ۔[93]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 93، 94، 95،

باب

چونکہ اللہ کے رسول یعقوب علیہ السلام اپنے رنج و غم میں روتے روتے نابینا ہو گئے تھے، اس لیے یوسف علیہ السلام اپنے بھائیوں سے کہتے ہیں کہ میرا یہ کرتہ لے کر تم ابا کے پاس جاؤ، اسے ان کے منہ پر ڈالتے ہی ان شاءاللہ ان کی نگاہ روشن ہو جائے گی۔ پھر انہیں اور اپنے گھرانے کے تمام اور لوگوں کو یہیں میرے پاس لے آؤ۔ ادھر یہ قافلہ مصر سے نکلا، ادھر اللہ تعالیٰ نے یعقوب علیہ السلام کو یوسف کی خوشبو پہنچا دی تو آپ علیہ السلام نے اپنے ان بچوں سے جو آپ کے پاس تھے فرمایا کہ مجھے تو میرے پیارے فرزند یوسف علیہ السلام کی خوشبو آ رہی ہے لیکن تم تو مجھے سترا بہترا کم عقل بڈھا کہہ کر میری اس بات کو باور نہیں کرنے کے۔ ابھی قافلہ کنعان سے آٹھ دن کے فاصلے پر تھا۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:294/7:] ‏‏‏‏ جو بحکم الٰہی ہوا نے یعقوب کو یوسف کے پیراہن کی خوشبو پہنچا دی۔ اس وقت یوسف علیہ السلام کی گمشدگی کی مدت اسی سال کی گزر چکی تھی اور قافلہ اسی فرسخ آپ سے دور تھا۔ لیکن بھائیوں نے کہا آپ تو یوسف علیہ السلام کی محبت میں غلطی میں پڑے ہوئے ہیں نہ غم آپ کے دل سے دور ہو نہ آپ کو تسلی ہو۔ ان کا یہ کلمہ بڑا سخت تھا کسی لائق اولاد کو لائق نہیں کہ اپنے باپ سے یہ کہے نہ کسی امتی کو لائق ہے کہ اپنی نبی علیہ السلام سے یہ کہے.