قرآن مجيد

سورة يوسف
قَالَ لَا تَثْرِيبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ يَغْفِرُ اللَّهُ لَكُمْ وَهُوَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ[92]
اس نے کہا آج تم پر کوئی ملامت نہیں، اللہ تمھیں بخشے اور وہ رحم کرنے والوں میں سب سے زیادہ رحم کرنے والا ہے۔[92]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 89، 90، 91، 92،

باب

جب بھائی یوسف علیہ السلام کے پاس اس عاجزی اور بے بسی کی حالت میں پہنچے اپنے تمام دکھ رونے لگے اپنے والد کی اور اپنے گھر والوں کی مصیبتیں بیان کیں تو یوسف علیہ السلام کا دل بھر آیا نہ رہا گیا۔ اپنے سر سے تاج اتار دیا اور بھائیوں سے کہا کچھ اپنے کرتوت یاد بھی ہیں کہ تم نے یوسف علیہ السلام کے ساتھ کیا کیا؟ اور اس کے بھائی کے ساتھ کیا کیا؟ وہ نری جہالت کا کرشمہ تھا اسی لیے بعض سلف فرماتے ہیں کہ اللہ کا ہر گنہگار جاہل ہے۔ قرآن فرماتا ہے «ثُمَّ إِنَّ رَبَّكَ لِلَّذِينَ عَمِلُوا السُّوءَ بِجَهَالَةٍ» [16-النحل:119] ‏‏‏‏ بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ پہلی دو دفعہ کی ملاقات میں یوسف علیہ السلام کو اپنے آپ کو ظاہر کرنے کا حکم اللہ نہ تھا۔ اب کی مرتبہ حکم ہو گیا۔ آپ علیہ السلام نے معاملہ صاف کر دیا۔ جب تکلیف بڑھ گئی سختی زیادہ ہو گئی تو اللہ تعالیٰ نے راحت دے دی اور کشادگی عطا فرما دی۔

جیسے ارشاد ہے: «فَإِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً ـ إِنَّ مَعَ الْعُسْرِ يُسْراً» [94-الشرح:5۔ 6] ‏‏‏‏سختی کے ساتھ آسانی ہے یقیناً سختی کے ساتھ آسانی ہے۔ اب بھائی چونک پڑے کچھ اس وجہ سے کہ تاج اتار نے کے بعد پیشانی کی نشانی دیکھ لی اور کچھ اس قسم کے سوالات کچھ حالات کچھ اگلے واقعات سب سامنے آ گئے۔ تاہم اپنا شک دور کرنے کے لیے پوچھا کہ کیا آپ ہی یوسف علیہ السلام ہیں؟ آپ علیہ السلام نے اس سوال کے جواب میں صاف کہہ دیا کہ ہاں میں خود یوسف علیہ السلام ہوں اور یہ میرا سگا بھائی ہے اللہ تعالیٰ نے ہم پر فضل و کرم کیا بچھڑنے کے بعد ملا دیا تفرقہ کے بعد اجتماع کر دیا۔ تقویٰ اور صبر رائیگاں نہیں جاتے۔ نیک کاری بےپھل لائے نہیں رہتی۔ اب تو بھائیوں نے یوسف علیہ السلام کی فضیلت اور بزرگی کا اقرار کر لیا کہ واقعی صورت سیرت دونوں اعتبار سے آپ علیہ السلام ہم پر فوقیت رکھتے ہیں۔ ملک و مال کے اعتبار سے بھی اللہ نے آپ کو ہم پر فضیلت دے رکھی ہے۔ اسی طرح بعض کے نزدیک نبوت کے اعتبار سے بھی کیونکہ یوسف علیہ السلام نبی تھے اور یہ بھائی نبی نہ تھے۔ اس اقرار کے بعد اپنی خطا کاری کا بھی اقرار کیا۔ اسی وقت یوسف علیہ السلام نے فرمایا میں آج کے دن کے بعد سے تمہیں تمہاری یہ خطا یاد بھی نہ دلاؤں گا میں تمہیں کوئی ڈانٹ ڈپٹ کرنا نہیں چاہتا نہ تم پر الزام رکھتا ہوں نہ تم پر اظہار خفگی کرتا ہوں بلکہ میری دعا ہے کہ اللہ بھی تمہیں معاف فرمائے وہ «أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ» ہے۔ بھائیوں نے عذر پیش کیا آپ علیہ السلام نے قبول فرما لیا اللہ تمہاری پردہ پوشی کرے اور تم نے جو کیا ہے اسے بخش دے۔