قرآن مجيد

سورة يوسف
يَا بَنِيَّ اذْهَبُوا فَتَحَسَّسُوا مِنْ يُوسُفَ وَأَخِيهِ وَلَا تَيْأَسُوا مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِنَّهُ لَا يَيْأَسُ مِنْ رَوْحِ اللَّهِ إِلَّا الْقَوْمُ الْكَافِرُونَ[87]
اے میرے بیٹو! جائو اور یوسف اور اس کے بھائی کا سراغ لگائو اور اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہو، بے شک حقیقت یہ ہے کہ اللہ کی رحمت سے نا امید نہیں ہوتے مگر وہی لوگ جو کافر ہیں۔[87]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 87، 88،

باب

حضرت یعقوب علیہ السلام اپنے بیٹوں کو حکم فرما رہے ہیں کہ تم ادھر ادھر جاؤ اور یوسف علیہ السلام اور بنیامین کی تلاش کرو۔ عربی میں «‏‏‏‏تَحَسُّ» کا لفظ بھلائی کی جستجو کے لیے بولا جاتا ہے اور برائی کی ٹٹول کے لئے «‏‏‏‏تَجَسّسُ» کا لفظ بولا جاتا ہے۔ ساتھ میں فرماتے ہیں کہ اللہ کی ذات سے مایوس نہ ہونا چاہیئے اس کی رحمت سے مایوس وہی ہوتے ہیں جن کے دلوں میں کفر ہوتا ہے۔ تم تلاش بند نہ کرو، اللہ سے نیک امید رکھو اور اپنی کوشش جاری رکھو۔

چنانچہ یہ لوگ چلے، پھر مصر پہنچے، یوسف علیہ السلام کے دربار میں حاضر ہوئے، وہاں اپنی خستہ حالی ظاہر کی کہ قحط سالی نے ہمارے خاندان کو ستا رکھا ہے، ہمارے پاس کچھ نہیں رہا، جس سے غلہ خریدتے اب ردی، واہی، ناقص، بیکار، کھوٹی اور قیمت نہ بننے والی کچھ یونہی سی رکھی رکھائی چیزیں لے کر آپ کے پاس آئے ہیں گویہ بدلہ نہیں کہا جا سکتا نہ قیمت بنتی ہے لیکن تاہم ہماری خواہش ہے کہ آپ ہمیں وہی دیجئیے جو سچی صحیح اور پوری قیمت پر دیا کرتے ہیں۔ ہمارے بوجھ بھر دیجئیے، ہماری خورجیاں پر کر دیجئیے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہما کی قرأت میں «فَأَوْفِ لَنَا الْكَيْلَ» کے بدلے «‏‏‏‏فَأَوْقِرْ رِكَابنَا وَتَصَدَّقْ عَلَيْنَا» ہے یعنی ہمارے اونٹ غلے سے لاد دیجئیے۔ اور ہم پر صدقہ کیجئے ہمارے بھائی کو رہائی دیجئیے، یا یہ مطلب ہے کہ یہ غلہ ہمیں ہمارے اس مال کے بدلے نہیں بلکہ بطور خیرات دیجئیے۔

حضرت سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ سے سوال ہوتا ہے کہ ہمارے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پہلے بھی کسی نبی پر صدقہ حرام ہوا ہے؟ تو آپ رحمہ اللہ نے یہی آیت پڑھ کر استدلال کیا کہ نہیں ہوا۔ مجاہد رحمہ اللہ سے سوال ہوا کہ کیا کسی شخص کا اپنی دعا میں یہ کہنا مکروہ ہے کہ یا اللہ مجھ پر صدقہ کر۔ فرمایا ہاں اس لیے کہ صدقہ وہ کرتا ہے جو طالب ثواب ہو۔