تفسیر ابن کثیر

سورة يوسف
قَالَ إِنَّمَا أَشْكُو بَثِّي وَحُزْنِي إِلَى اللَّهِ وَأَعْلَمُ مِنَ اللَّهِ مَا لَا تَعْلَمُونَ[86]
اس نے کہا میں تو اپنی ظاہر ہوجانے والی بے قراری اور اپنے غم کی شکایت صرف اللہ کی جناب میں کرتا ہوں اور میں اللہ کی طرف سے جانتا ہوں جو تم نہیں جانتے۔[86]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 85، 86،

باب

بچوں نے باپ کا یہ حال دیکھ کر انہیں سمجھانا شروع کیا کہ ابا جی آپ تو اسی کی یاد میں اپنے آپ کو گھلا دیں گے بلکہ ہمیں تو ڈر ہے کہ اگر آپ کا یہی حال کچھ دنوں اور رہا تو کہیں زندگی سے ہاتھ نہ دھو بیٹھیں۔ یعقوب علیہ السلام نے انہیں جواب دیا کہ میں تم سے تو کچھ نہیں کہہ رہا میں تو اپنے رب کے پاس اپنا دکھ رو رہا ہوں۔ اور اس کی ذات سے بہت امید رکھتا ہوں وہ بھلائیوں والا ہے۔ مجھے یوسف کا خواب یاد ہے، جس کی تعبیر ظاہر ہو کر رہے گی۔

ابن ابی حاتم میں ہے کہ یعقوب علیہ السلام کے ایک مخلص دوست نے ایک مرتبہ آپ علیہ السلام سے پوچھا کہ آپ کی بینائی کیسے جاتی رہی؟ اور آپ کی کمر کیسے کبڑی ہو گئی؟ آپ علیہ السلام نے فرمایا یوسف علیہ السلام کو رو رو کر آنکھیں کھو بیٹھا اور بنیامین کے صدمے نے کمر توڑ دی۔ اسی وقت جبرائیل علیہ السلام آئے اور فرمایا اللہ تعالیٰ آپ کو سلام کے بعد کہتا ہے کہ میری شکایتیں دوسروں کے سامنے کرنے سے آپ شرماتے نہیں؟ یعقوب علیہ السلام نے اسی وقت فرمایا کہ میری پریشانی اور غم کی شکایت اللہ ہی کے سامنے ہے۔ جبرائیل علیہ السلام نے فرمایا آپ کی شکایت کا اللہ کو خوب علم ہے۔ [بیهقی فی شعب الایمان:3403/3:ضعیف] ‏‏‏‏ یہ حدیث بھی غریب ہے اور اس میں بھی نکارت ہے۔