اے لوگو جو ایمان لائے ہو! بے شک بہت سے عالم اور درویش یقینا لوگوں کا مال باطل طریقے سے کھاتے ہیں اور اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی خزانہ بنا کر رکھتے ہیں اور اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو انھیں دردناک عذاب کی خوش خبری دے دے۔[34]
یہودیوں کے علماء کو احبار اور نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان کہتے ہیں۔ «لَوْلَا يَنْھٰىهُمُ الرَّبّٰنِيُّوْنَ وَالْاَحْبَارُ» [5-المآئدہ:63] میں یہود کے علماء کو احبار کہا گیا ہے۔ نصرانیوں کے عابدوں کو رہبان اور ان کے علماء کو قسیس اس آیت میں کہا گیا ہے «ذٰلِكَ بِاَنَّ مِنْهُمْ قِسِّيْسِيْنَ وَرُهْبَانًا» [5-المآئدہ:82] آیت کا مقصود لوگوں کو برے علماء گمراہ صوفیوں اور عابدوں سے ہوشیار کرانا اور ڈرانا ہے۔
سفیان بن عیینہ رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ”ہمارے علماء میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں کچھ نہ کچھ شائبہ یہودیت کا ہوتا ہے اور صوفیوں اور عابدوں میں سے وہی بگڑتے ہیں جن میں نصرانیت کا شائبہ ہوتا ہے۔“
صحیح حدیث میں ہے کہ تم یقیناً اپنے سے پہلوں کی روش پر چل پڑو گے ایسی پوری مشابہت سے کہ ذرا بھی فرق نہ رہے۔ لوگوں نے پوچھا کیا یہود و نصاریٰ کی روش پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں انہی کی روش پر۔“ [صحیح بخاری:7319] اور روایت میں ہے کہ لوگوں نے پوچھا کیا فارسیوں اور رومیوں کی روش پر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور کون لوگ ہیں“؟ [صحیح بخاری:7320]
پس ان کے اقوال افعال کی مشابہت سے بہت ہی بچنا چاہیئے۔ یہ اس لیے کہ یہ منصب و ریاست حاصل کرنا اور اس وجاہت سے لوگوں کے مال مارنا چاہتے ہیں۔ احبار یہود کو زمانہ جاہلیت میں بڑا ہی رسوخ حاصل تھا ان کے تحفے، ہدیے، خراج، چراغی مقرر تھی جو بغیر مانگے انہیں پہنچ جاتی تھی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے بعد اسی طمع نے انہیں قبول اسلام سے روکا۔ لیکن حق کے مقابلے کی وجہ سے اس طرف سے بھی کورے رہے اور آخرت سے بھی گئے گزرے، ذلت و حقارت ان پر برس پڑی اور غضب الٰہی میں مبتلا ہو کر تباہ و برباد ہو گئے۔ یہ حرام کھانی جماعت خود حق سے رک کر اوروں کے بھی درپے رہتی تھی حق کو باطل میں خلط ملط کر کے لوگوں کو بھی راہ حق سے روک دیتے تھے۔
جاہلوں میں بیٹھ کر گپ ہانکتے کہ ہم لوگوں کو راہ حق کی طرف بلاتے ہیں حالانکہ یہ صریح دھوکہ ہے وہ تو جہنم کی طرف بلانے والے ہیں قیامت کے دن یہ بےیارو مددگار چھوڑ دیئے جائیں گے۔ عالموں کا، اور صوفیوں کا یعنی واعظوں اور عابدوں کا ذکر کر کے اب امیروں دولت مندوں اور رئیسوں کا حال بیان ہو رہا ہے کہ جس طرح یہ دونوں طبقے اپنے اندر بدترین لوگوں کو بھی رکھتے ہیں ایسے ہی اس تیسرے طبقے میں بھی شریر النفس لوگ ہوتے ہیں۔
عموماً انہی تین طبقے کے لوگوں کا عوام پر اثر ہوتا ہے عوام کی کثیر تعداد ان کے ساتھ بلکہ ان کے پیچھے ہوتی ہیں پس ان کا بگڑنا گویا مذہبی دنیا کا ستیاناس ہونا ہے جیسے کہ ابن مبارک رحمہ اللہ علیہ کہتے ہیں۔ «وھل افسدالدین الا الملوک واحبار سوء ورھبانھا» یعنی دین واعظوں، عالموں، صوفیوں اور درویشوں کے پلید طبقے سے ہی بگڑتا ہے۔
”کنز“ اصطلاح شرع میں اس مال کو کہتے ہیں جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی جاتی ہو۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے یہی مروی ہے بلکہ آپ فرماتے ہیں: ”جس مال کی زکوٰۃ دے دی جاتی ہو وہ اگر ساتویں زمین تلے بھی ہو تو وہ کنز نہیں اور جس کی زکوٰۃ نہ دی جاتی ہو وہ گو زمین پر ظاہر پھیلا پڑا ہو کنز ہے۔“
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بھی موقوفاً اور مرفوعاً یہی مروی ہے۔ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ بھی یہی فرماتے ہیں اور فرماتے ہیں: ”بے زکوٰۃ کے مال سے اس مالدار کو داغا جائے گا۔“ آپ رضی اللہ عنہ کے صاحبزادے سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ یہ زکوٰۃ کے اترنے سے پہلے تھا زکوٰۃ کا حکم نازل فرما کر اللہ نے اسے مال کی طہارت بنا دیا۔
خلیفہ برحق عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ علیہ اور عراک بن مالک رحمہ اللہ نے بھی یہی فرمایا ہے کہ اسے قول ربانی «خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ» [التوبہ:103] الخ نے منسوخ کر دیا ہے۔
ابوامامہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”تلواروں کا زیور بھی کنز یعنی خزانہ ہے۔ یاد رکھو میں تمہیں وہی سناتا ہوں جو میں نے جناب پیغمبر حق صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے۔“ سیدنا علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ ”چار ہزار اور اس سے کم تو نفقہ ہے اور اس سے زیاہ کنز ہے۔“ [بیهقی فی السنن الکبریٰ:82/2:موقوف] لیکن یہ قول غریب ہے۔
مال کی کثرت کی مذمت اور کمی کی مدحت میں بہت سی حدیثیں وارد ہوئی ہیں بطور نمونے کے ہم بھی یہاں ان میں سے چند نقل کرتے ہیں۔ مسند عبدالرزاق میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”سونے چاندی والوں کے لیے ہلاکت ہے“ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہی فرمان سن کر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پر شاق گزرا اور انہوں نے سوال کیا کہ پھر ہم کس قسم کا مال رکھیں؟ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حالت بیان کر کے یہی سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”ذکر کرنے والی زبان شکر کرنے والا دل اور دین کے کاموں میں مدد دینے والی بیوی۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:16676:مرسل]
مسند احمد میں ہے کہ سونے چاندی کی مذمت کی یہ آیت جب اتری اور صحابہ رضی اللہ عنہم نے آپس میں چرچا کیا تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: ”لو میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کر آتا ہوں“، اپنی سواری تیز کر کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جا ملے۔ [مسند احمد:372/5:صحیح]
اور روایات میں ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم نے کہا پھر ہم اپنی اولادوں کے لیے کیا چھوڑ جائیں؟ اس میں ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پیچھے ہی پیچھے ثوبان رضی اللہ عنہ بھی تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے سوال پر فرمایا کہ ”اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ اسی لیے مقرر فرمائی ہے کہ بعد کا مال پاک ہو جائے۔ میراث کا مقرر کرنا بتلا رہا ہے کہ جمع کرنے میں کوئی حرج نہیں۔“ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ سن کر مارے خوشی کے تکبیریں کہنے لگے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لو اور سنو! میں تمہیں بہترین خزانہ بتلاؤں نیک عورت جب اس کا خاوند اس کی طرف نظر ڈالے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب حکم دے فوراً بجا لائے اور جب وہ موجود نہ ہو تو حفاظت کرے۔ [سنن ابوداود:1664،قال الشيخ الألباني:ضعیف]
حسان بن عطیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ ایک سفر میں تھے ایک منزل میں اترے اور اپنے غلام سے فرمایا کہ ”چھری لاؤ کھیلیں۔“ مجھے برا معلوم ہوا آپ نے افسوس ظاہر کیا اور فرمایا: ”میں نے تو اسلام کے بعد سے اب تک ایسی بے احتیاطی کی بات کبھی نہیں کی تھی اب تم اسے بھول جاؤ اور ایک حدیث بیان کرتا ہوں اسے یاد رکھو لو“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”جب لوگ سونا چاندی جمع کرنے لگیں تم ان کلمات کو بکثرت کہا کرو۔ «اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ الثَّبَاتَ فِي الْأَمْرِ، وَالْعَزِيمَةَ عَلَى الرُّشْدِ، وَأَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ، وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ شُكْرَ نِعْمَتِكَ، وَحُسْنَ عِبَادَتِكَ، وَأَسْأَلُكَ قَلْبَاً سَلِيمَاً، وَلِسَانَاً صَادِقَاً، وَأَسْأَلُكَ مِنْ خَيْرِ مَا تَعْلَمُ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْ شَرِّ مَا تَعْلَمُ، وَأَسْتَغْفِرُكَ لِمَا تَعْلَمُ، إِنَّكَ أنْتَ عَلاَّمُ الْغُيُوبِ» یعنی یا اللہ! میں تجھ سے کام کی ثابت قدمی اور بھلائیوں کی پختگی اور تیری نعمتوں کا شکریہ اور تیری عبادتوں کی اچھائی اور سلامتی والا دل اور سچی زبان اور تیرے علم میں جو بھلائی ہے وہ اور تیرے علم میں جو برائی ہے اس سے پناہ اور جن برائیوں کو تو جانتا ہے ان سے استغفار طلب کرتا ہوں میں مانتا ہوں کہ تو تمام غیب کا جاننے والا ہے۔“ [مسند احمد:123/4:حسن بالشواھد]
آیت میں بیان ہے کہ اللہ کی راہ میں اپنے مال کو نہ خرچ کرنے والے اور اسے چھپا چھپا کر رکھنے والے درد ناک عذابوں سے مطلع ہو جائیں۔ قیامت کے دن اسی مال کو خوب تپا کر گرم آگ جیسا کر کے اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور کمر داغی جائے گی اور بطور ڈانٹ ڈپٹ کے ان سے فرمایا جائے گا کہ لو اپنی جمع جتھا کا مزہ چکھو۔
جیسے اور آیت میں ہے کہ فرشتوں کو حکم ہو گا کہ جہنمی گرم پانی کا تریڑ ان کے سروں پر بہاؤ اور ان سے کہو کہ عذاب کا لطف اٹھاؤ تم بڑے ذی عزت اور بزرگ سمجھے جاتے رہے، [44-الدخان:48،49] یہ ہے بدلہ اس کا۔
ثابت ہوا کہ جو شخص جس چیز کو محبوب بنا کر اللہ تعالیٰ کی اطاعت سے اسے مقدم کرے گا اسی کے ساتھ اسے عذاب ہو گا۔ ان مالداروں نے مال کی محبت میں اللہ تعالیٰ کے فرمان کو بھلا دیا تھا آج اسی مال سے انہیں سزا دی جا رہی ہے۔
جیسے کہ ابولہب کھلم کھلا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دشمنی کرتا تھا اور اس کی بیوی اس کی مدد کرتی تھی قیامت کے دن آگ کے اور بھڑکانے کے لیے وہ اپنے گلے میں رسی ڈال کر لکڑیاں لا لا کر اسے سلگائے گی اور اس میں وہ جلتا رہے گا۔ یہ مال جو یہاں سے سب سے زیادہ پسندیدہ ہیں یہی مال قیامت کے دن سب سے زیادہ مضر ثابت ہوں گے۔ اسی کو گرم کر کے اس سے داغ دیئے جائیں گے۔
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ”ایسے مالداروں کے جسم اتنے لمبے چوڑے کر دیئے جائیں گے کہ ایک ایک دینار و درہم اس پر آ جائے پھر کل مال آگ جیسا بنا کر علیحدہ علیحدہ کر کے سارے جسم پر پھیلا دیا جائے گا یہ نہیں ایک کے بعد ایک داغ لگے، بلکہ ایک ساتھ سب کے سب۔“ [تفسیر ابن جریر الطبری:233/14] مرفوعاً بھی یہ روایت آئی تو ہے لیکن اس کی سند صحیح نہیں، واللہ اعلم۔
طاؤس رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ ”اس کا مال ایک اژدھا بن کر اس کے پیچھے لگے گا جو عضو سامنے آ جائے گا اسی کو چبا جائے گا۔“ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں جو اپنے بعد خزانہ چھوڑ جائے اس کا وہ خزانہ قیامت کے دن زہریلا اژدھا بن کر جس کی آنکھوں پر نقطے ہوں گے اس کے پیچھے لگے گا یہ بھاگتا ہوا پوچھے گا کہ تو کون ہے؟ وہ کہے گا تیرا جمع کردہ اور مرنے کے بعد چھوڑا ہوا خزانہ آخر اسے پکڑ لے گا اور اس کا ہاتھ چبا جائے گا پھر باقی جسم بھی۔“ [صحیح ابن خریمہ:2255]
صحیح مسلم وغیرہ میں ہے کہ جو شخص اپنے مال کی زکوٰۃ نہ دے اس کا مال قیامت کے دن آگ کی تختیوں جیسا بنا دیا جائے گا اور اس سے اس کی پیشانی پہلو اور کمر داغی جائے گی۔ پچاس ہزار سال تک لوگوں کے فیصلے ہو جانے تک تو اس کا یہی حال رہے گا پھر اسے اس کی منزل کی راہ دکھا دی جائے گی جنت کی طرف یا جہنم کی طرف۔ [صحیح مسلم:978]
امام بخاری رحمہ اللہ اسی آیت کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ زید بن وہب رحمہ اللہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے ربذہ میں ملے اور دریافت کیا کہ تم یہاں کیسے آ گئے ہو؟ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”ہم شام میں تھے وہاں میں نے آیت «وَالَّذِيْنَ يَكْنِزُوْنَ» [9-التوبہ:34] کی تلاوت کی“ تو سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”یہ آیت ہم مسلمانوں کے بارے میں نہیں یہ تو اہل کتاب کے بارے میں ہے۔“ میں نے کہا: ”ہمارے اور ان کے سب کے حق میں ہے۔“ [صحیح بخاری:4660]
اس میں میرا ان کا اختلاف ہو گیا انہوں نے میری شکایت کا خط دربار عثمانی میں لکھا، خلافت کا فرمان میرے نام آیا کہ تم یہاں چلے آؤ۔ جب میں مدینہ طیبہ پہنچا تو دیکھا کہ چاروں طرف سے مجھے لوگوں نے گھیر لیا۔ اس طرح بھیڑ لگ گئی کہ گویا انہوں نے اس سے پہلے مجھے دیکھا ہی نہ تھا۔ غرض میں مدینہ منورہ میں ٹھہرا لیکن لوگوں کی آمد و رفت سے تنگ آ گیا۔ آخر میں نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے شکایت کی تو آپ نے مجھے فرمایا کہ ”تم مدینے کے قریب ہی کسی صحرا میں چلے جاؤ۔“ میں نے اس حکم کی بھی تعمیل کی لیکن یہ کہہ دیا کہ واللہ! جو میں کہتا تھا اسے ہرگز نہیں چھوڑ سکتا۔ [صحیح بخاری:1406]
آپ کا خیال یہ تھا کہ بال بچوں کے کھلانے کے بعد جو بچے اسے جمع کر رکھنا مطلقاً حرام ہے۔ اسی کا آپ فتویٰ دیتے تھے اور اسی بات کو لوگوں میں پھیلاتے تھے اور لوگوں کو بھی اس پر آمادہ کرتے تھے اسی کا حکم دیتے تھے اور اس کے مخالف لوگوں پر بڑا ہی تشدد کرتے تھے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے آپ کو روکنا چاہا کہ کہیں لوگوں میں عام ضرر نہ پھیل جائے یہ نہ مانے تو آپ نے خلیفہ سے شکایت کی۔ امیر المؤمنین نے انہیں بلا کر ربذہ میں تنہا رہنے کا حکم دیا۔ آپ وہیں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت میں ہی رحلت فرما گئے۔
سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے بطور امتحان ایک مرتبہ ان کے پاس ایک ہزار اشرفیاں بھجوائیں آپ نے شام سے پہلے ہی پہلے سب ادھر ادھر اللہ کی راہ میں خرچ کر ڈالیں۔ شام کو وہی صاحب جو انہیں صبح کو ایک ہزار اشرفیاں دے گئے تھے وہ آئے اور کہا مجھ سے غلطی ہو گئی امیر معاویہ رضی اللہ عنہ نے وہ اشرفیاں اور صاحب کے لیے بھجوائی تھیں۔ میں نے غلطی سے آپ کو دے دیں۔ وہ واپس کیجئے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا تم پر افسوس ہے میرے پاس تو اب ان میں سے ایک پائی بھی نہیں اچھا جب میرا مال آ جائے گا تو میں آپ کو آپ کی اشرفیاں واپس کر دوں گا۔
ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی اس آیت کے حکم کو عام بتلاتے ہیں۔ سدی رحمہ اللہ فرماتے ہیں ”یہ آیت اہل قبلہ کے بارے میں ہے۔“ احنف بن قیس رحمہ اللہ فرماتے ہیں: میں مدینہ منورہ میں آیا دیکھا کہ ایک جماعت قریشیوں کی محفل لگائے بیٹھی ہے میں بھی اس مجلس میں بیٹھ گیا کہ ایک صاحب تشریف لائے میلے کچیلے، موٹے، چھوٹے کپڑے پہنے ہوئے بہت خستہ حال میں اور آکر کھڑے ہو کر فرمانے لگے روپیہ پیسہ جمع کرنے والے اس سے خبردار رہیں کہ قیامت کے دن جہنم کے انگارے ان کی چھاتی کی بٹنی پر رکھے جائیں گے جو کھوے کی ہڈی کے پار ہو جائیں گے پھر پیچھے کی طرف سے آگے کو سوراخ کرتے اور جلاتے ہوئے نکل جائیں گے۔ لوگ سب سر نیچا کئے بیٹھے رہے کوئی بھی کچھ نہ بولا وہ بھی مڑ کر چل دیئے۔
اور ایک ستون سے لگ کر بیٹھ گئے میں ان کے پاس پہنچا اور ان سے کہا کہ میرے خیال میں تو ان لوگوں کو آپ کی بات بری لگی آپ نے فرمایا یہ کچھ نہیں جانتے۔
ایک صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ ”میرے پاس اگر احد پہاڑ کے برابر بھی سونا ہو تو مجھے یہ بات اچھی نہیں معلوم ہوتی کہ تین دن گزرنے کے بعد میرے پاس اس میں سے کچھ بھی بچا ہوا رہے ہاں اگر قرض کی ادائیگی کے لیے میں کچھ رکھ لوں تو اور بات ہے۔ [صحیح بخاری:2444]
غالباً اسی حدیث نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کا یہ مذہب کر دیا تھا۔ جو آپ نے اوپر پڑھا، واللہ اعلم۔ ایک مرتبہ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کو ان کا حصہ ملا آپ کی لونڈی نے اسی وقت ضروریات کو فراہم کرنا شروع کیا۔ سامان کی خرید کے بعد سات بچ رہے۔
حکم دیا کہ اس کے فلوس لے لو تو سیدنا سیدنا عبداللہ بن صامت رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”اسے آپ اپنے پاس رہنے دیجئیے تاکہ بوقت ضرور کام نکل جائے یا کوئی مہمان آ جائے تو کوئ کام نہ اٹکے۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ”نہیں مجھ سے میرے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم نے عہد لیا ہے کہ جو سونا چاندی سربند کر کے رکھی جائے وہ رکھنے والے کے لیے آگ کا انگارا ہے جب تک کہ اسے راہ اللہ نہ دے دے۔ [مسند احمد:156/5:صحیح]
ابن عساکر میں ہے سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ سے فقیر بن کر مل غنی بن کر نہ مل۔“ انہوں نے پوچھا: ”یہ کس طرح“؟ فرمایا: ”سائل کو رد نہ کر جو ملے اسے چھپا نہ رکھ۔“ انہوں نے کہا: ”یہ کیسے ہو سکے گا“؟ آپ نے فرمایا: ”یہی ہے ورنہ آگ ہے۔“ [سلسلة احادیث صحیحه البانی:6742،] اس کی سند ضعیف ہے۔
اہل صفہ میں ایک صاحب کا انتقال ہو گیا وہ دینار یا دو درہم ان کے بچے ہوئے نکلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ آگ کے دو داغ ہیں تم لوگ اپنے ساتھی کے جنازے کی نماز پڑھ لو۔“ [مسند احمد:101/1:حسن لغیرہ]
اور روایت میں ہے کہ ایک اہل صفہ کے انتقال کے بعد ان کی تہبند کی آنٹی میں سے ایک دینار نکلا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک داغ آگ کا۔“ پھر دوسرے کا انتقال ہوا ان کے پاس سے دو دینار برآمد ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دو داغ آگ کے۔“ [مسند احمد:253،252/5:صحیح]
فرماتے ہیں جو لوگ سرخ و سفید یعنی سونا چاندی چھوڑ کر مرے ایک ایک قیراط کے بدلے ایک ایک تختی آگ کی بنادی جائے گی اور اس کے قدم سے لے کے ٹھوڑی تک اس کے جسم میں آگ سے داغ کئے جائیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جس نے دینار سے دینار اور درہم سے درہم ملا کر جمع کر کے رکھ چھوڑا اس کی کھال کشادہ کر کے پیشانی اور کروٹ اور کمر پر اس کے داغ کئے جائیں گے اور کہا جائے گا یہ ہے جسے تم اپنی جانوں کے لیے خزانہ بناتے رہے اب اس کا بدلہ چکھو۔ اس کا راوی سیف کذاب و متروک ہے۔