فرماتا ہے کہ ہر قسم کے کفار کا ارادہ اور چاہت یہی ہے کہ اللہ کا نور بجھا دیں ہدایتِ ربانی اور دینِ حق کو مٹا دیں تو خیال کر لو کہ اگر کوئی شخص اپنے منہ کی پھونک سے آفتاب یا مہتاب کی روشنی بجھانی چاہے تو کیا یہ ہو سکتا ہے؟ اسی طرح یہ لوگ بھی اللہ کے نور کے بجھانے کی چاہت میں اپنی امکانی کوشش کرلیں آخر عاجز ہو کر رہ جائیں گے۔
ضروری بات ہے اور اللہ تعالیٰ کا فیصلہ ہے کہ دین حق تعلیمِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا بول بالا ہو گا۔ تم مٹانا چاہتے ہو اللہ تعالیٰ بلند کرنا چاہتا ہے ظاہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کی چاہت تمہاری چاہت پر غالب رہے گی تم گو ناخوش رہو لیکن آفتابِ ہدایت بیچ آسمان میں پہنچ کر ہی رہے گا۔
عربی لغت میں کافر کہتے ہیں کسی چیز کے چھپا لینے والے کو اسی اعتبار سے رات کو بھی کافر کہتے ہیں اس لیے کہ وہ بھی تمام چیزوں کو چھپا لیتی ہے، کسان کو کافر کہتے ہیں کیونکہ وہ دانے زمین میں چھپا دیتا ہے۔
جیسے فرمان ہے «اَعْجَبَ الْكُفَّارَ نَبَاتُهٗ» [57-الحديد:20] اسی اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت اور دینِ حق کے ساتھ اپنا پیغمبر بنا کر بھیجا ہے۔
پس نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سچی خبریں اور صحیح ایمان اور نفع والا علم یہ ہدایت ہے اور عمدہ اعمال جو دنیا آخرت میں نفع دیں یہ دین حق ہے۔ یہ تمام مذاہب عالم پر چھا کر رہے گا۔
نبی کریم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ”میرے لیے مشرق و مغرب کی زمین لپیٹ دی گئی میری امت کا ملک ان تمام جگہوں تک پہنچے گا۔“ [صحیح مسلم:2889] فرماتے ہیں تمہارے ہاتھوں پر مشرق و مغرب فتح ہو گا۔ تمہارے سردار جہنمی ہیں، بجز ان کے جو متقی، پرہیزگار اور امانت دار ہوں۔ [مسند احمد:366،367/5:صحیح]
فرماتے ہیں یہ دین تمام اس جگہ پر پہنچے گا جہاں پر دن رات پہنچیں کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جہاں اللہ عزوجل اسلام کو نہ پہنچائے۔ عزیزوں کو عزیز کرے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا۔ اسلام کو عزت دینے والوں کو عزت ملے گی اور کفر کو ذلت نصیب ہو گی۔
سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے تو یہ بات خود اپنے گھر میں بھی دیکھ لی جو مسلمان ہوا اسے خیر و برکت، عزت و شرافت ملی اور جو کافر رہا اسے ذلت و نکبت، نفرت و لعنت نصیب ہوئی، پستی اور حقارت دیکھی اور کمینہ پن کے ساتھ جزیہ دینا پڑا۔ [مسند احمد:103/4:صحیح]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں ”روئے زمین پر کوئی کچا پکا گھر ایسا باقی نہ رہے گا جس میں اللہ تبارک و تعالیٰ کلمہ اسلام کو داخل نہ کر دے وہ عزت والوں کو عزت دے گا اور ذلیلوں کو ذلیل کرے گا جنہیں عزت دینی چاہے گا انہیں اسلام نصیب کرے گا اور جنہیں ذلیل کرنا ہو گا وہ اسے مانیں گے نہیں لیکن اس کی ماتحتی میں انہیں آنا پڑے گا۔“ [مسند احمد:4/6:صحیح]
سیدنا عدی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ”میرے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے مجھ سے فرمایا: ”اسلام قبول کر تاکہ سلامتی ملے۔“ میں نے کہا: ”میں تو ایک دین کو مانتا ہوں۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے دین کا تجھ سے زیادہ مجھے علم ہے۔“ میں نے کہا: ”سچ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالکل سچ۔ کیا تو رکوسیہ میں سے نہیں ہے؟ کیا تو اپنی قوم سے ٹیکس وصول نہیں کرتا“؟ میں نے کہا: ”یہ تو سچ ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تیرے دین میں یہ تیرے لیے حلال نہیں۔“ پس یہ سنتے ہی میں تو جھک گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں خوب جانتا ہوں کہ تجھے اسلام سے کون سی چیز روکتی ہے۔ سن! صرف ایک یہی بات تجھے روک رہی ہے کہ مسلمان بالکل ضعیف اور کمزور اور ناتواں ہیں تمام عرب انہیں گھیرے ہوئے ہے یہ ان سے نپٹ نہیں سکتے لیکن سن! حیرہ کا تجھے علم ہے“؟
میں نے کہا: ”دیکھا تو نہیں سنا ضرور ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ اللہ تعالیٰ اس امر دین کو پورا فرمائے گا یہاں تک کہ ایک سانڈنی سوار حیرہ سے چل کر بغير كسي كي امان كےُمکہ معظمہ پہنچے گا اور بیت اللہ کا طواف کرے گا۔ واللہ! تم کسریٰ کے خزانے فتح کرو گے۔“ میں نے کہا: ”کسریٰ بن ہرمز کے“؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں ہاں کسریٰ بن ہرمز کے، تم میں مال کی اس قدر کثرت ہو پڑے گی کہ کوئی لینے والا نہ ملے گا۔“
اس حدیث کو بیان کرتے وقت عدی رحمہ اللہ نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان پورا ہوا یہ دیکھو آج حیرہ سے سواریاں چلتی ہیں بےخوف و خطر بغیر کسی کی پناہ کے بیت اللہ پہنچ کر طواف کرتی ہیں۔ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی دوسری پیشن گوئی بھی پوری ہوئی۔ کسریٰ کے خزانے فتح ہوئے میں خود اس فوج میں تھا جس نے ایران کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور کسریٰ کے مخفی خزانے اپنے قبضے میں کئے۔ واللہ! مجھے یقین ہے کہ صادق و مصدوق صلی اللہ علیہ وسلم کی تیسری پیشین گوئی بھی قطعاً پوری ہو کر ہی رہے گی۔“ [مسند احمد:378/4:حسن]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ”دن رات کا دور ختم نہ ہو گا۔ جب تک کہ پھر لات و عزیٰ کی عبادت نہ ہونے لگے۔“ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ”رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم «هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ» کے نازل ہونے کے بعد سے میرا خیال تو آج تک یہی رہا کہ یہ پوری بات ہے۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں پوری ہو گئی اور مکمل ہی رہے گی جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہو پھر اللہ تعالیٰ رب العالمین ایک پاک ہوا بھیجیں گے جو ہر اس شخص کو بھی فوت کرلے گی جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان ہو۔ پھر وہی لوگ باقی رہ جائیں گے جن میں کوئی خیر و خوبی نہ ہو گی۔ پس وہ اپنے باپ دادوں کے دین کی طرف پھر سے لوٹ جائیں گئے۔“ [صحیح مسلم:2907]