جادوگروں کو اپنی قوت پر بڑا گھمنڈ تھا۔ وہ سب فی الحقیقت اپنے اس فن کے لاجواب استاد تھے۔ اس لیے انہوں نے آتے ہی موسیٰ علیہ السلام کو چیلنج دیا کہ لو ہوشیار ہو جاؤ۔ تمہیں اختیار ہے کہ میدان میں اپنے کرتب پہلے دکھاؤ اور اگر کہو تو پہل ہم کر دیں۔
آپ نے فرمایا: بہتر ہے کہ تمہارے حوصلے نکل جائیں اور لوگ تمہارا کمال فن دیکھ لیں اور پھر اللہ کی قدرت کو بھی دیکھ لیں اور حق و باطل میں دیکھ بھال کر فیصلہ کر سکیں۔ وہ تو یہ چاہتے ہی تھے، انہوں نے جھٹ سے اپنی رسیاں اور لکڑیاں نکال نکال کر میدان میں ڈالنی شروع کر دیں۔ ادھر وہ میدان میں پڑتے ہی چلتی پھرتی اور بنی بنائی سانپ معلوم ہونے لگیں۔ یہ صرف نظر بندی تھی۔ فی الواقع خارج میں ان کا وجود بدل نہیں گیا تھا بلکہ اس طرح لوگوں کو دکھائی دیتی تھیں کہ گویا زندہ ہیں۔
موسیٰ علیہ السلام اپنے دل میں خطرہ محسوس کرنے لگے۔ اللہ کی طرف سے وحی آئی کہ خوف نہ کر، تو ہی غالب رہے گا۔ اپنے دائیں ہاتھ کی لکڑی ڈال تو سہی! ان کا کیا دھرا یہ تو سب کو ہڑپ کر جائے گی۔
یہ سب تو جادوگری کا کرشمہ ہے۔ بھلا جادو والے بھی کبھی کامیاب ہوئے ہیں؟ بڑی موٹی موٹی رسیاں اور لمبی لمبی لکڑیاں انہوں نے ڈالی تھیں جو سب چلتی پھرتی، دوڑتی بھاگتی معلوم ہو رہی تھیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:21/6]
یہ جادوگر پندرہ ہزار یا تیس ہزار سے اوپر اوپر تھے یا ستر ہزار کی تعداد میں تھے۔ ہر ایک اپنے ساتھ رسیاں اور لکڑیاں لایا تھا۔ صف بستہ کھڑے تھے اور لوگ چاروں طرف موجود تھے۔ ہر ایک ہمہ تن شوق بنا ہوا تھا۔ فرعون اپنے لاؤ لشکر اور درباریوں سمیت بڑے رعب سے اپنے تخت پر بیٹھا ہوا تھا۔ ادھر وقت ہوا، ادھر سب کی نگاہوں نے دیکھا کہ ایک درویش صفت اللہ کا نبی علیہ السلام اپنے ساتھ اپنے بھائی کو لیے ہوئے لکڑی ٹکاتے ہوئے آ رہا ہے۔
یہ تھے جن کے مقابلے کی یہ دھوم دھام تھی۔ آپ کے آتے ہی جادوگروں نے صرف یہ دریافت کر کے کہ ابتداء کس کی طرف سے ہونی چاہیئے، خود ابتداء کر دی۔ موسیٰ علیہ السلام کی، پھر فرعون کی، پھر تماشائیوں کی آنکھوں پر جادو کر کے سب کو ہیبت زدہ کر دیا۔ اب جو انہوں نے اپنی اپنی رسیاں اور لاٹھیاں پھینکیں تو ہزارہا کی تعداد میں پہاڑوں کے برابر سانپ نظر آنے لگے جو اوپر تلے ایک دوسرے سے لپٹ رہے ہیں۔ ادھر ادھر دوڑ رہے ہیں، میدان بھر گیا ہے۔ انہوں نے اپنے فن کا پورا مظاہرہ کر دکھایا۔