قرآن مجيد

سورة الأعراف
تِلْكَ الْقُرَى نَقُصُّ عَلَيْكَ مِنْ أَنْبَائِهَا وَلَقَدْ جَاءَتْهُمْ رُسُلُهُمْ بِالْبَيِّنَاتِ فَمَا كَانُوا لِيُؤْمِنُوا بِمَا كَذَّبُوا مِنْ قَبْلُ كَذَلِكَ يَطْبَعُ اللَّهُ عَلَى قُلُوبِ الْكَافِرِينَ[101]
یہ بستیاں ہیں، ہم تجھ سے ان کے کچھ حالات بیان کر رہے ہیں اور بلاشبہ یقینا ان کے پاس ان کے رسول واضح دلائل لے کر آئے، تو وہ ایسے نہ تھے کہ اس چیز کو مان لیتے جسے وہ اس سے پہلے جھٹلا چکے تھے۔ اسی طرحاللہ کافروں کے دلوں پر مہر کر دیتا ہے۔[101]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 101، 102،

عہد شکن لوگوں کی طے شدہ سزا ٭٭

پہلے قوم نوح، ہود، صالح، لوط اور قوم شعیب کا بیان گزر چکا ہے۔ اس کے بعد اللہ تعالیٰ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرماتا ہے کہ ان سب کے پاس ہمارے رسول حق لے کر پہنچے، معجزے دکھائے، سمجھایا، بجھایا، دلیلیں دیں لیکن وہ نہ مانے اور اپنی بد عادتوں سے باز نہ آئے۔ جس کی پاداش میں ہلاک ہو گئے۔ صرف ماننے والے بچ گئے۔

اللہ کا طریقہ اسی طرح جاری ہے کہ ” جب تک رسول نہ آ جائیں، خبردار نہ کر دیئے جائیں، عذاب نہیں کئے جاتے۔ “ [17-الإسراء:15] ‏‏‏‏

ہم ظالم نہیں لیکن جبکہ لوگ خود ظلم پر کمر کس لیں تو پھر ہمارے عذاب انہیں آ پکڑتے ہیں۔ ان سب نے جن چیزوں کا انکار کر دیا تھا، ان پر باوجود دلیلیں دیکھ لینے کے بھی ایمان نہ لائے۔ آیت «بِمَا كَذَّبُوا» میں «ب» سببیہ ہے۔ جیسے ساتویں پارے کے آخر میں فرمایا ہے کہ ” تم کیا جانو؟ یہ لوگ تو معجزے آنے پر بھی ایمان نہ لائیں گے۔ ہم ان کے دلوں اور آنکھوں کو الٹ دیں گے۔ جیسے کہ یہ اس قرآن پر پہلی بار ایمان نہ لائے تھے اور ہم انہیں ان کی سرکشی کی حالت میں بھٹکتے ہوئے چھوڑ دیں گے۔ “ [6-الأنعام:109-110] ‏‏‏‏

یہاں بھی فرمان ہے کہ کفار کے دلوں پر اسی طرح ہم مہر لگا دیا کرتے ہیں۔

ان میں سے اکثر بدعہد ہیں بلکہ عموماً فاسق ہیں۔ یہ عہد وہ ہے جو روز ازل میں لیا گیا تھا اور اسی پر پیدا کئے گئے۔ اسی فطرت اور جبلت میں رکھا گیا، اسی کی تاکید انبیاء علیہم السلام کرتے رہے۔ لیکن انہوں نے اس عہد کو پس پشت ڈال دیا یا مطلق پرواہ نہ کی اور اس عہد کے خلاف غیر اللہ کی پرستش شروع کر دی۔ اللہ کو مالک، خالق اور لائق عبادت مان کر آئے تھے لیکن یہاں اس کے سراسر خلاف کرنے لگے اور بےدلیل، خلاف عقل و نقل، خلاف فطرت اور خلاف شرع، اللہ کے سوا دوسروں کی عبادت میں لگ گئے۔

صحیح مسلم شریف کی حدیث میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: میں نے اپنے بندوں کو موحد اور یکطرفہ پیدا کیا لیکن شیطان نے آ کر انہیں بہکا دیا اور میری حلال کردہ چیزیں ان پر حرام کر دیں۔ [صحیح مسلم:2865] ‏‏‏‏

بخاری و مسلم میں ہے: ہر بچہ فطرت اسلام پر پیدا ہوتا ہے پھر اسے اس کے ماں باپ یہودی، نصرانی، مجوسی بنا لیتے ہیں الخ۔ [صحیح بخاری:4775] ‏‏‏‏

خود قرآن کریم میں ہے: ” ہم نے تجھ سے پہلے جتنے رسول بھیجے تھے، سب کی طرف یہی وحی کی تھی کہ میرے سوا اور کوئی معبود نہیں۔ اے دنیا کے لوگو! تم سب صرف میری ہی عبادت کرتے رہو۔ “ [21-الأنبياء:25] ‏‏‏‏

اور آیت میں ہے: ” اپنے سے پہلے کے رسولوں سے دریافت کر لو کہ کیا ہم نے اپنے سوا اور معبود ان کے لیے مقرر کئے تھے؟ “ [43-الزخرف:45] ‏‏‏‏

اور فرمان ہے «وَلَقَدْ بَعَثْنَا فِي كُلِّ أُمَّةٍ رَّسُولًا أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ وَاجْتَنِبُوا الطَّاغُوتَ» [16-النحل:36] ‏‏‏‏ ” ہم نے ہر امت میں رسول بھیجا کہ لوگو! صرف اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے سوا ہر ایک کی عبادت سے الگ رہو۔ “

اس مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں۔ اس جملے کے معنی یہ بھی کئے گئے ہیں کہ چونکہ پہلے ہی سے اللہ کے علم میں یہ بات مقرر ہو گئی تھی کہ انہیں ایمان نصیب نہیں ہو گا۔ یہی ہو کر رہا کہ باوجود دلائل سامنے آ جانے کے، ایمان نہ لائے۔ میثاق والے دن گو یہ ایمان قبول کر بیٹھے لیکن ان کے دلوں کی حالت اللہ جل شانہ کو معلوم تھی کہ ان کا ایمان جبراً اور ناخوشی سے ہے۔

جیسے فرمان ہے کہ ” یہ اگر دوبارہ دنیا کی طرف لوٹائے جائیں تو پھر بھی وہی کام نئے سرے سے کرنے لگیں گے جن سے انہیں روکا گیا ہے۔ “ [6-الأنعام:28] ‏‏‏‏