قرآن مجيد

سورة الأعراف
أَوَأَمِنَ أَهْلُ الْقُرَى أَنْ يَأْتِيَهُمْ بَأْسُنَا ضُحًى وَهُمْ يَلْعَبُونَ[98]
اور کیا بستیوں والے بے خوف ہوگئے کہ ہمارا عذاب ان پر دن چڑھے آجائے اور وہ کھیل رہے ہوں۔[98]
تفسیر ابن کثیر، تفسیر آیت/آیات، 97، 98، 99، 100،

گناہوں میں ڈوبے لوگ؟ ٭٭

ارشاد ہے کہ ایک گروہ نے ہمارا مقابلہ کیا اور ہم نے انہیں تاخت و تاراج کیا۔ دوسرا گروہ ان کے قائم مقام ہوا تو کیا اس پر بھی یہ بات واضح نہیں ہوتی کہ اگر وہ بداعمالیاں کریں گے تو اپنے سے اگلوں کی طرح کھو دیئے جائیں گے؟ جیسے فرمان ہے «أَفَلَمْ يَهْدِ لَهُمْ كَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُمْ مِّنَ الْقُرُونِ يَمْشُونَ فِى مَسَـكِنِهِمْ» [20-طه:128] ‏‏‏‏ یعنی ” کیا انہیں اب تک سمجھ نہیں آئی کہ ہم نے ان سے پہلے بہت سی آباد بستیاں اجاڑ کر رکھ دیں جن کے مکانوں میں اب یہ رہتے سہتے ہیں۔ اگر یہ عقل مند ہوتے تو ان کے لیے بہت سی عبرتیں تھیں۔ “

اور اس بیان کے بعد کی آیت میں ہے کہ اس میں بہت سی نشانیاں ہیں۔ کیا یہ سن نہیں رہے؟

ایک آیت میں فرمایا: تم اس سے پہلے پورے یقین سے کہتے تھے کہ تمہیں زوال آئے گا ہی نہیں۔ حالانکہ تم جن کے گھروں میں تھے، وہ خود بھی اپنے مظالم کے سبب تباہ کر دیئے گئے تھے۔ خالی گھر رہ گئے۔

ایک اور آیت میں ہے «وَكَمْ أَهْلَكْنَا قَبْلَهُم مِّن قَرْنٍ هَلْ تُحِسُّ مِنْهُم مِّنْ أَحَدٍ أَوْ تَسْمَعُ لَهُمْ رِكْزًا» [19-مريم:98] ‏‏‏‏ ” ان سے پہلے ہم نے بہت سی بستیاں تباہ کر دیں۔ نہ ان میں سے اب کوئی نظر آئے، نہ کسی کی آواز سنائی دے۔ “

اور آیت میں ہے کہ وہ لوگ تو ان سے زیادہ مست تھے، مال دار تھے، عیش و عشرت میں تھے، راحت و آرام میں تھے، اوپر سے ابر برستا تھا، نیچے سے چشمے بہتے تھے لیکن گناہوں میں ڈوبے رہے کہ آخر تہس نہس ہو گئے اور دوسرے لوگ ان کے قائم مقام آئے۔

عادیوں کی ہلاکت کا بیان فرما کر ارشاد ہوا کہ ایسے عذاب اچانک آ گئے کہ ان کے وجود کی دھجیاں اڑ گئیں، کھنڈر کھڑے رہ گئے اور کسی چیز کا نام و نشان نہ بچا۔ مجرموں کا یہی حال ہوتا ہے۔

” حالانکہ دنیوی وجاہت بھی ان کے پاس تھی۔ آنکھ، کان، دل سب تھا لیکن اللہ جل شانہ کی باتوں کا تمسخر کرنے پر اور ان کے انکار پر جب عذاب آیا تو حیران و ششدر رہ گئے۔ نہ عقل آئی، نہ اسباب بچے۔ اپنے آس پاس کی ویران بستیاں دیکھ کر عبرت حاصل کرو۔ اگلوں نے جھٹلایا تو دیکھ لو کہ کس طرح برباد ہوئے؟ “ [46-الأحقاف:25-27] ‏‏‏‏

” تم تو ابھی تک ان کے دسویں حصے کو بھی نہیں پہنچے۔ تم سے پہلے کے منکروں پر میرے عذاب آئے، انہیں غور سے سنو۔ “ [34-سبأ:45] ‏‏‏‏

” ظالموں کی بستیاں میں نے الٹ دیں اور ان کے محلات کھنڈر بنا دیئے۔ زمین میں چل پھر کر، آنکھیں کھول کر، کان لگا کر ذرا عبرت حاصل کرو۔ جس کی آنکھیں نہ ہوں، وہی اندھا نہیں بلکہ سچ مچ اندھا وہ ہے جس کی دلی آنکھیں بےکار ہوں۔ “ [22-الحج:45-46] ‏‏‏‏

اگلے نبیوں کے ساتھ بھی مذاق اڑائے گئے لیکن نتیجہ یہی ہوا کہ ایسے مذاق کرنے والوں کا نشان مٹ گیا۔ ایسے گھیرے گئے کہ ایک بھی نہ بچا۔ اللہ تعالیٰ کی باتیں سچی ہیں، اس کے وعدے اٹل ہیں۔ وہ ضرور اپنے دوستوں کی مدد کرتا ہے اور اپنے دشمنوں کو نیچا دکھاتا ہے۔