قرآن پاک لفظ ثُمَّ کے تحت آنے والی قرآنی آیات
نمبر لفظ آیت ترجمہ
21
ثُمَّ
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [2-البقرة:259]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے مار دیا سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ﻇاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
یا اس شخص کی طرح جو ایک بستی پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری ہوئی تھی، اس نے کہا اللہ اس کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اسے سو (۱۰۰) سال تک موت دے دی، پھر اسے زندہ کیا، فرمایا تو کتنی دیر رہا ہے؟ اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ فرمایا بلکہ تو سو (۱۰۰) سال رہا ہے، سو اپنے کھانے اور اپنے پینے کی چیزیں دیکھ کہ بگڑی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھ ہم انھیں کیسے اٹھا کر جوڑتے ہیں، پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں۔ پھر جب اس کے لیے خوب واضح ہوگیا تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
22
ثُمَّ
أَوْ كَالَّذِي مَرَّ عَلَى قَرْيَةٍ وَهِيَ خَاوِيَةٌ عَلَى عُرُوشِهَا قَالَ أَنَّى يُحْيِي هَذِهِ اللَّهُ بَعْدَ مَوْتِهَا فَأَمَاتَهُ اللَّهُ مِائَةَ عَامٍ ثُمَّ بَعَثَهُ قَالَ كَمْ لَبِثْتَ قَالَ لَبِثْتُ يَوْمًا أَوْ بَعْضَ يَوْمٍ قَالَ بَلْ لَبِثْتَ مِائَةَ عَامٍ فَانْظُرْ إِلَى طَعَامِكَ وَشَرَابِكَ لَمْ يَتَسَنَّهْ وَانْظُرْ إِلَى حِمَارِكَ وَلِنَجْعَلَكَ آيَةً لِلنَّاسِ وَانْظُرْ إِلَى الْعِظَامِ كَيْفَ نُنْشِزُهَا ثُمَّ نَكْسُوهَا لَحْمًا فَلَمَّا تَبَيَّنَ لَهُ قَالَ أَعْلَمُ أَنَّ اللَّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ [2-البقرة:259]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
یا اس شخص کے مانند کہ جس کا گزر اس بستی پر ہوا جو چھت کے بل اوندھی پڑی ہوئی تھی، وه کہنے لگا اس کی موت کے بعد اللہ تعالیٰ اسے کس طرح زنده کرے گا؟ تو اللہ تعالی نے اسے مار دیا سو سال کے لئے، پھر اسے اٹھایا، پوچھا کتنی مدت تجھ پر گزری؟ کہنے لگا ایک دن یا دن کا کچھ حصہ، فرمایا بلکہ تو سو سال تک رہا، پھر اب تو اپنے کھانے پینے کو دیکھ کہ بالکل خراب نہیں ہوا اور اپنے گدھے کو بھی دیکھ، ہم تجھے لوگوں کے لئے ایک نشانی بناتے ہیں تو دیکھ کہ ہم ہڈیوں کو کس طرح اٹھاتے ہیں، پھر ان پر گوشت چڑھاتے ہیں، جب یہ سب ﻇاہر ہو چکا تو کہنے لگا میں جانتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز پر قادر ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
یا اسی طرح اس شخص کو (نہیں دیکھا) جسے ایک گاؤں میں جو اپنی چھتوں پر گرا پڑا تھا اتفاق گزر ہوا۔ تو اس نے کہا کہ خدا اس (کے باشندوں) کو مرنے کے بعد کیونکر زندہ کرے گا۔ تو خدا نے اس کی روح قبض کرلی (اور) سو برس تک (اس کو مردہ رکھا) پھر اس کو جلا اٹھایا اور پوچھا تم کتنا عرصہ (مرے) رہے ہو اس نے جواب دیا کہ ایک دن یا اس سے بھی کم۔ خدا نے فرمایا (نہیں) بلکہ سو برس (مرے) رہے ہو۔ اور اپنے کھانے پینے کی چیزوں کو دیکھو کہ (اتنی مدت میں مطلق) سڑی بسی نہیں اور اپنے گدھے کو بھی دیکھو (جو مرا پڑا ہے) غرض (ان باتوں سے) یہ ہے کہ ہم تم کو لوگوں کے لئے (اپنی قدرت کی) نشانی بنائیں اور (ہاں گدھے) کی ہڈیوں کو دیکھو کہ ہم ان کو کیونکر جوڑے دیتے اور ان پر (کس طرح) گوشت پوست چڑھا دیتے ہیں۔ جب یہ واقعات اس کے مشاہدے میں آئے تو بول اٹھا کہ میں یقین کرتا ہوں کہ خدا ہر چیز پر قادر ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
یا اس شخص کی طرح جو ایک بستی پر گزرا اور وہ اپنی چھتوں پر گری ہوئی تھی، اس نے کہا اللہ اس کو اس کے مرنے کے بعد کیسے زندہ کرے گا؟ تو اللہ نے اسے سو (۱۰۰) سال تک موت دے دی، پھر اسے زندہ کیا، فرمایا تو کتنی دیر رہا ہے؟ اس نے کہا میں ایک دن یا دن کا کچھ حصہ رہا ہوں۔ فرمایا بلکہ تو سو (۱۰۰) سال رہا ہے، سو اپنے کھانے اور اپنے پینے کی چیزیں دیکھ کہ بگڑی نہیں اور اپنے گدھے کو دیکھ اور تاکہ ہم تجھے لوگوں کے لیے ایک نشانی بنائیں اور ہڈیوں کو دیکھ ہم انھیں کیسے اٹھا کر جوڑتے ہیں، پھر ان کو گوشت پہناتے ہیں۔ پھر جب اس کے لیے خوب واضح ہوگیا تو اس نے کہا میں جانتا ہوں کہ اللہ ہر چیز پر پوری طرح قادر ہے۔
23
ثُمَّ
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [2-البقرة:260]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زنده کرے گا؟ (جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں واﻻ ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ فرمایا اور کیا تو نے یقین نہیں کیا؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔ فرمایا پھر چار پرندے پکڑ اور انھیں اپنے ساتھ مانوس کر لے، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے، پھر انھیں بلا، دوڑتے ہوئے تیرے پاس آجائیں گے اور جان لے کہ اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔
24
ثُمَّ
وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَى وَلَكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَى كُلِّ جَبَلٍ مِنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ [2-البقرة:260]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور جب ابراہیم (علیہ السلام) نے کہا کہ اے میرے پروردگار! مجھے دکھا تو مُردوں کو کس طرح زنده کرے گا؟ (جناب باری تعالیٰ نے) فرمایا، کیا تمہیں ایمان نہیں؟ جواب دیا ایمان تو ہے لیکن میرے دل کی تسکین ہو جائے گی، فرمایا چار پرند لو، ان کے ٹکڑے کر ڈالو، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک ایک ٹکڑا رکھ دو پھر انہیں پکارو، تمہارے پاس دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ غالب ہے حکمتوں واﻻ ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور جب ابراہیم نے (خدا سے) کہا کہ اے پروردگار مجھے دکھا کہ تو مردوں کو کیونکر زندہ کرے گا۔ خدا نے فرمایا کیا تم نے (اس بات کو) باور نہیں کیا۔ انہوں نے کہا کیوں نہیں۔ لیکن (میں دیکھنا) اس لئے (چاہتا ہوں) کہ میرا دل اطمینان کامل حاصل کرلے۔ خدا نے فرمایا کہ چار جانور پکڑوا کر اپنے پاس منگا لو (اور ٹکڑے ٹکڑے کرادو) پھر ان کا ایک ٹکڑا ہر ایک پہاڑ پر رکھوا دو پھر ان کو بلاؤ تو وہ تمہارے پاس دوڑتے چلے آئیں گے۔ اور جان رکھو کہ خدا غالب اور صاحب حکمت ہے۔
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور جب ابراہیم نے کہا اے میرے رب! مجھے دکھا تو مردوں کو کیسے زندہ کرے گا؟ فرمایا اور کیا تو نے یقین نہیں کیا؟ کہا کیوں نہیں اور لیکن اس لیے کہ میرا دل پوری تسلی حاصل کر لے۔ فرمایا پھر چار پرندے پکڑ اور انھیں اپنے ساتھ مانوس کر لے، پھر ہر پہاڑ پر ان کا ایک حصہ رکھ دے، پھر انھیں بلا، دوڑتے ہوئے تیرے پاس آجائیں گے اور جان لے کہ اللہ سب پر غالب، کمال حکمت والاہے۔
25
ثُمَّ
الَّذِينَ يُنْفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ ثُمَّ لَا يُتْبِعُونَ مَا أَنْفَقُوا مَنًّا وَلَا أَذًى لَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلَا هُمْ يَحْزَنُونَ [2-البقرة:262]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
جو لوگ اپنا مال اللہ تعالیٰ کی راه میں خرچ کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ تو احسان جتاتے ہیں نہ ایذا دیتے ہیں، ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے ان پر نہ تو کچھ خوف ہے نہ وه اداس ہوں گے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
جو لوگ اپنا مال خدا کے رستے میں صرف کرتے ہیں پھر اس کے بعد نہ اس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں۔ ان کا صلہ ان کے پروردگار کے پاس (تیار) ہے۔ اور (قیامت کے روز) نہ ان کو کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
جو لوگ اپنے مال اللہ کے راستے میں خرچ کرتے ہیں، پھر انھوں نے جو خرچ کیا اس کے پیچھے نہ کسی طرح کا احسان جتلانا لگاتے ہیں اور نہ کوئی تکلیف پہنچانا، ان کے لیے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے، اور ان پر نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
26
ثُمَّ
وَاتَّقُوا يَوْمًا تُرْجَعُونَ فِيهِ إِلَى اللَّهِ ثُمَّ تُوَفَّى كُلُّ نَفْسٍ مَا كَسَبَتْ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ [2-البقرة:281]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم سب اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹائے جاؤگے اور ہر شخص کو اس کے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور اس دن سے ڈرو جب کہ تم خدا کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا۔ اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور اس دن سے ڈرو جس میں تم اللہ کی طرف لوٹائے جائو گے، پھر ہر شخص کو پورا دیا جائے گا جو اس نے کمایااور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔
27
ثُمَّ
أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِنَ الْكِتَابِ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ لِيَحْكُمَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ يَتَوَلَّى فَرِيقٌ مِنْهُمْ وَهُمْ مُعْرِضُونَ [3-آل عمران:23]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
کیا آپ نے انہیں نہیں دیکھا جنہیں ایک حصہ کتاب کا دیا گیا ہے وه اپنے آپس کے فیصلوں کے لئے اللہ تعالیٰ کی کتاب کی طرف بلائے جاتے ہیں، پھر بھی ایک جماعت ان کی منھ پھیر کر لوٹ جاتی ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جن کو کتاب (خدا یعنی تورات سے) بہرہ دیا گیا اور وہ (اس) کتاب الله کی طرف بلائے جاتے ہیں تاکہ وہ (ان کے تنازعات کا) ان میں فیصلہ کر دے تو ایک فریق ان میں سے کج ادائی کے ساتھ منہ پھیر لیتا ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
کیا تو نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنھیں کتاب میں سے ایک حصہ دیا گیا، انھیں اللہ کی کتاب کی طرف بلایا جاتا ہے، تاکہ وہ ان کے درمیان فیصلہ کرے، پھر ان میں سے ایک گروہ منہ پھیر لیتا ہے، اس حال میں کہ وہ منہ موڑنے والے ہوتے ہیں۔
28
ثُمَّ
إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنْتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ [3-آل عمران:55]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
جب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے واﻻ ہوں اور تجھے اپنی جانب اٹھانے واﻻ ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرنے واﻻ ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے واﻻ ہوں قیامت کے دن تک، پھر تم سب کا لوٹنا میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کروں گا
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اس وقت خدا نے فرمایا کہ عیسیٰ! میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھا لوں گا اور تمہیں کافروں (کی صحبت) سے پاک کر دوں گا اور جو لوگ تمہاری پیروی کریں گے ان کو کافروں پر قیامت تک فائق (وغالب) رکھوں گا پھر تم سب میرے پاس لوٹ کر آؤ گے تو جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے اس دن تم میں ان کا فیصلہ کردوں گا
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
جب اللہ نے فرمایا اے عیسیٰ! بے شک میں تجھے قبض کرنے والا ہوں اور تجھے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں اورتجھے ان لوگوں سے پاک کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا اور ان لوگوں کو جنھوں نے تیری پیروی کی، قیامت کے دن تک ان لوگوں کے اوپر کرنے والا ہوں جنھوں نے کفر کیا، پھر میری ہی طرف تمھارا لوٹ کر آنا ہے تو میں تمھارے درمیان اس چیز کے بارے میں فیصلہ کروں گا جس میں تم اختلاف کیا کرتے تھے۔
29
ثُمَّ
إِنَّ مَثَلَ عِيسَى عِنْدَ اللَّهِ كَمَثَلِ آدَمَ خَلَقَهُ مِنْ تُرَابٍ ثُمَّ قَالَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ [3-آل عمران:59]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عیسیٰ (علیہ السلام) کی مثال ہو بہو آدم (علیہ السلام) کی مثال ہے جسے مٹی سے بنا کر کے کہہ دیا کہ ہو جا! پس وه ہو گیا!
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
عیسیٰ کا حال خدا کے نزدیک آدم کا سا ہے کہ اس نے (پہلے) مٹی سے ان کا قالب بنایا پھر فرمایا کہ (انسان) ہو جا تو وہ (انسان) ہو گئے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
بے شک عیسیٰ کی مثال اللہ کے نزدیک آدم کی مثال کی طرح ہے کہ اسے تھوڑی سی مٹی سے بنایا، پھر اسے فرمایا ہو جا، سو وہ ہو جاتا ہے۔
30
ثُمَّ
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ وَنِسَاءَنَا وَنِسَاءَكُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللَّهِ عَلَى الْكَاذِبِينَ [3-آل عمران:61]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اس لئے جو شخص آپ کے پاس اس علم کے آجانے کے بعد بھی آپ سے اس میں جھگڑے تو آپ کہہ دیں کہ آو ہم تم اپنے اپنے فرزندوں کو اور ہم تم اپنی اپنی عورتوں کواور ہم تم خاص اپنی اپنی جانوں کو بلالیں، پھر ہم عاجزی کے ساتھ التجا کریں اور جھوٹوں پر اللہ کی لعنت کریں
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا والتجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
پھر جو شخص تجھ سے اس کے بارے میں جھگڑا کرے، اس کے بعد کہ تیرے پاس علم آ چکا تو کہہ دے آئو! ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلا لیں اور اپنی عورتوں اور تمھاری ورتوں کو بھی اور اپنے آپ کو اور تمھیں بھی، پھر گڑگڑا کر دعا کریں ، پس جھوٹوں پر اللہ کی لعنت بھیجیں۔