قرآن پاک لفظ يُنْفِقُ کے تحت آنے والی قرآنی آیات
نمبر لفظ آیت ترجمہ
1
يُنْفِقُ
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تُبْطِلُوا صَدَقَاتِكُمْ بِالْمَنِّ وَالْأَذَى كَالَّذِي يُنْفِقُ مَالَهُ رِئَاءَ النَّاسِ وَلَا يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ فَمَثَلُهُ كَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَيْهِ تُرَابٌ فَأَصَابَهُ وَابِلٌ فَتَرَكَهُ صَلْدًا لَا يَقْدِرُونَ عَلَى شَيْءٍ مِمَّا كَسَبُوا وَاللَّهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْكَافِرِينَ [2-البقرة:264]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اے ایمان والو! اپنی خیرات کو احسان جتا کر اور ایذا پہنچا کر برباد نہ کرو! جس طرح وه شخص جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لئے خرچ کرے اور نہ اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھے نہ قیامت پر، اس کی مثال اس صاف پتھر کی طرح ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو پھر اس پر زوردار مینہ برسے اور وه اسے بالکل صاف اور سخت چھوڑ دے، ان ریاکاروں کو اپنی کمائی میں سے کوئی چیز ہاتھ نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کافروں کی قوم کو (سیدھی) راه نہیں دکھاتا
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کردینا۔ جو لوگوں کو دکھاوے کے لئے مال خرچ کرتا ہے اور خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتا۔ تو اس (کے مال) کی مثال اس چٹان کی سی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اس پر زور کا مینہ برس کر اسے صاف کر ڈالے۔ (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کرسکیں گے۔ اور خدا ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اے لوگو جو ایمان لائے ہو! اپنے صدقے احسان رکھنے اور تکلیف پہنچانے سے برباد مت کرو، اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کے دکھاوے کے لیے خرچ کرتا ہے اور اللہ اور یوم آخرت پر ایمان نہیں رکھتا، تو اس کی مثال ایک صاف چٹان کی مثال جیسی ہے جس پر تھوڑی سی مٹی ہو، پھر اس پر ایک زوردار بارش برسے، پس اسے ایک سخت چٹان کی صورت چھوڑ جائے۔ وہ اس میں سے کسی چیز پر قدرت نہیں پائیں گے جو انھوں نے کمایا اور اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
2
يُنْفِقُ
وَقَالَتِ الْيَهُودُ يَدُ اللَّهِ مَغْلُولَةٌ غُلَّتْ أَيْدِيهِمْ وَلُعِنُوا بِمَا قَالُوا بَلْ يَدَاهُ مَبْسُوطَتَانِ يُنْفِقُ كَيْفَ يَشَاءُ وَلَيَزِيدَنَّ كَثِيرًا مِنْهُمْ مَا أُنْزِلَ إِلَيْكَ مِنْ رَبِّكَ طُغْيَانًا وَكُفْرًا وَأَلْقَيْنَا بَيْنَهُمُ الْعَدَاوَةَ وَالْبَغْضَاءَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ كُلَّمَا أَوْقَدُوا نَارًا لِلْحَرْبِ أَطْفَأَهَا اللَّهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا وَاللَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُفْسِدِينَ [5-المائدة:64]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور یہودیوں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں۔ انہی کے ہاتھ بندھے ہوئے ہیں اور ان کے اس قول کی وجہ سے ان پر لعنت کی گئی، بلکہ اللہ تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔ جس طرح چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے اتارا جاتا ہے وه ان میں سے اکثر کو تو سرکشی اور کفر میں اور بڑھا دیتا ہے اور ہم نے ان میں آپس میں ہی قیامت تک کے لئے عداوت اور بغض ڈال دیا ہے، وه جب کبھی لڑائی کی آگ کو بھڑکانا چاہتے ہیں تو اللہ تعالیٰ اسے بجھا دیتا ہے، یہ ملک بھر میں شر وفساد مچاتے پھرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ فسادیوں سے محبت نہیں کرتا
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور یہود کہتے ہیں کہ خدا کا ہاتھ (گردن سے) بندھا ہوا ہے (یعنی الله بخیل ہے) انہیں کے ہاتھ باندھے جائیں اور ایسا کہنے کے سبب ان پر لعنت ہو (اس کا ہاتھ بندھا ہوا نہیں) بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہیں وہ جس طرح (اور جتنا) چاہتا ہے خرچ کرتا ہے اور (اے محمد) یہ (کتاب) جو تمہارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی اس سے ان میں سے اکثر کی شرارت اور انکار اور بڑھے گا اور ہم نے ان کے باہم عداوت اور بغض قیامت تک کے لیے ڈال دیا ہے یہ جب لڑائی کے لیے آگ جلاتے ہیں خدا اس کو بجھا دیتا ہے اور یہ ملک میں فساد کے لیے دوڑے پھرتے ہیں اور خدا فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور یہود نے کہا اللہ کا ہاتھ بندھا ہوا ہے، ان کے ہاتھ باندھے گئے اور ان پر لعنت کی گئی، اس کی وجہ سے جو انھوں نے کہا، بلکہ اس کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں، خرچ کرتا ہے جیسے چاہتا ہے، اور یقینا جو کچھ تیری طرف تیرے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے وہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو سرکشی اور کفر میں ضرور بڑھا دے گا، اور ہم نے ان کے درمیان قیامت کے دن تک دشمنی اور بغض ڈال دیا۔ جب کبھی وہ لڑائی کی کوئی آگ بھڑکاتے ہیں اللہ اسے بجھا دیتا ہے اور وہ زمین میں فساد کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور اللہ فساد کرنے والوں سے محبت نہیں کرتا۔
3
يُنْفِقُ
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ مَغْرَمًا وَيَتَرَبَّصُ بِكُمُ الدَّوَائِرَ عَلَيْهِمْ دَائِرَةُ السَّوْءِ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ [9-التوبة:98]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور ان دیہاتیوں میں سے بعض ایسے ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو جرمانہ سمجھتے ہیں اور تم مسلمانوں کے واسطے برے وقت کے منتظر رہتے ہیں، برا وقت ان ہی پر پڑنے واﻻ ہے اور اللہ سننے واﻻ جاننے واﻻ ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ جو خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تمہارے حق میں مصیبتوں کے منتظر ہیں۔ ان ہی پر بری مصیبت (واقع) ہو۔ اور خدا سننے والا (اور) جاننے والا ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں کہ جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے تاوان سمجھتے ہیں اور تم پر (زمانے کے) چکروں کا انتظار کرتے ہیں، برا چکر انھی پر ہے اور اللہ سب کچھ سننے والا، سب کچھ جاننے والا ہے۔
4
يُنْفِقُ
وَمِنَ الْأَعْرَابِ مَنْ يُؤْمِنُ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَيَتَّخِذُ مَا يُنْفِقُ قُرُبَاتٍ عِنْدَ اللَّهِ وَصَلَوَاتِ الرَّسُولِ أَلَا إِنَّهَا قُرْبَةٌ لَهُمْ سَيُدْخِلُهُمُ اللَّهُ فِي رَحْمَتِهِ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ [9-التوبة:99]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اور بعض اہل دیہات میں ایسے بھی ہیں جو اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو عنداللہ قرب حاصل ہونے کا ذریعہ اور رسول کی دعا کا ذریعہ بناتے ہیں، یاد رکھو کہ ان کا یہ خرچ کرنا بیشک ان کے لیے موجب قربت ہے، ان کو اللہ تعالیٰ ضرور اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
اور بعض دیہاتی ایسے ہیں کہ خدا پر اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اس کو خدا کی قُربت اور پیغمبر کی دعاؤں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ دیکھو وہ بےشبہ ان کے لیے (موجب) قربت ہے خدا ان کو عنقریب اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اور بدویوں میں سے کچھ وہ ہیں جو اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں اور جو کچھ خرچ کرتے ہیں اسے اللہ کے ہاں قربتوں اور رسول کی دعائوں کا ذریعہ سمجھتے ہیں۔ سن لو! بے شک وہ ان کے لیے قرب کا ذریعہ ہے، عنقریب اللہ انھیں اپنی رحمت میں داخل کرے گا۔ بے شک اللہ بے حد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
5
يُنْفِقُ
ضَرَبَ اللَّهُ مَثَلًا عَبْدًا مَمْلُوكًا لَا يَقْدِرُ عَلَى شَيْءٍ وَمَنْ رَزَقْنَاهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ يُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَجَهْرًا هَلْ يَسْتَوُونَ الْحَمْدُ لِلَّهِ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ [16-النحل:75]
[ترجمہ محمد جوناگڑھی]
اللہ تعالیٰ ایک مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے دوسرے کی ملکیت کا، جو کسی بات کا اختیار نہیں رکھتا اور ایک اور شخص ہے جسے ہم نے اپنے پاس سے معقول روزی دے رکھی ہے، جس میں سے وه چھپے کھلے خرچ کرتا ہے۔ کیا یہ سب برابر ہوسکتے ہیں؟ اللہ تعالیٰ ہی کے لیے سب تعریف ہے، بلکہ ان میں سے اکثر نہیں جانتے
[ترجمہ فتح محمد جالندھری]
خدا ایک اور مثال بیان فرماتا ہے کہ ایک غلام ہے جو (بالکل) دوسرے کے اختیار میں ہے اور کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور ایک ایسا شخص ہے جس کو ہم نے اپنے ہاں سے (بہت سا) مال طیب عطا فرمایا ہے اور وہ اس میں سے (رات دن) پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتا رہتا ہے تو کیا یہ دونوں شخص برابر ہیں؟ (ہرگز نہیں) الحمدلله لیکن ان میں سے اکثر لوگ نہیں سمجھ رکھتے
[ترجمہ محمد عبدالسلام بن محمد]
اللہ نے ایک مثال بیان کی، ایک غلام ہے جو کسی کی ملکیت ہے، کسی چیز پر قدرت نہیں رکھتا اور وہ شخص جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھا رزق دیا ہے تو وہ اس میں سے پوشیدہ اور کھلم کھلا خرچ کرتا ہے، کیا وہ برابر ہیں؟ سب تعریف اللہ کے لیے ہے، بلکہ ان کے اکثر نہیں جانتے۔