شرح الحديث:
الله تعالیٰ کا دایاں ہاتھ بھرا ہوا ہے اور شب و روز کے مسلسل خرچ کرنے سے بھی اس میں کوئی کمی نہیں آتی:
حافظ ابن حجر رحمة الله علیه نے طیبی رحمة الله علیه کا قول نقل کیا ہے، جس کا خلاصہ یوں ہے کہ: ان الفاظ اور مترادف خبروں سے ذاتِ باری تعالیٰ کی عظمت و مرتبت ثابت ہوتی ہے۔ اور اس کے علاوہ ذاتِ باری کا شب و روز صَرفِ پیہم کرنا، اس کے دائمی اور غیر فانی سرچشمۂ دولت کی علامت ہے۔
[فتح الباري: 395/13] اس کا عرش پانی پر تھا: حافظ ابن حجر رحمة الله علیه فرماتے ہیں: "اس مقام سے ذکرِ عرش کا تعلق یہ ہے کہ ابتدائے حدیث میں ذکر ہوا۔
«خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ» (الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کی تخلیق کی) تو کہیں سامع کے ذہن میں یہ وسوسہ پیدا نہ ہو کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل کچھ تھا ہی نہیں، بلکہ تخلیق کا ذکر کرنے کے فوراً بعد فرمایا کہ زمین و آسمان کی پیدائش سے قبل عرش باری تعالیٰ پانی پر تھا۔ جیسا کہ عمران بن حصن رضی الله عنہ سے مروی حدیث ہے
«وَكَانَ عَرشُهُ عَلَي الْمَاءِ، ثُمَّ خَلَقَ السَّمَوَاتِ وَالْاَرْضَ» عرش باری تعالیٰ پانی پر تھا، اس کے بعد الله تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا۔ "
[فتح الباري: 395/13] اس بات کی تصدیق قرآن حکیم میں بھی موجود ہے:
«وَهُوَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ فِي سِتَّةِ أَيَّامٍ وَكَانَ عَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ» [هود: 7] "وہی الله ہے، جس نے چھ دن میں زمین و آسمان کی تخلیق کی، اور اس کا عرش پانی پر تھا۔ "
سیدنا عبدالله بن عمرو رضی الله عنہ فرماتے ہیں، میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:
«كَتَبَ اللَّهُ مَقَادِيرَ الْخَلَائِقِ قَبْلَ أَنْ يَخْلُقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِخَمْسِينَ أَلْفَ سَنَةٍ، قَالَ: وَعَرْشُهُ عَلَى الْمَاءِ .» [صحيح مسلم، كتاب القدر، رقم 6748] "الله تعالیٰ نے ساری مخلوقات کی تقدیر زمین و آسمان کی تخلیق سے پچاس ہزار سال قبل لکھی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اور
(اس وقت) الله کا عرش پانی پر تھا۔ "
مذکورہ دلائل سے معلوم ہوا کہ زمین و آسمان کی تخلیق سے قبل عرش باری تعالیٰ پانی پر قائم تھا، لیکن قرآن و سنت کے بے شمار دلائل سے یہ بات بھی ثابت ہے کہ زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد سے عرش ساتوں آسمان کے اوپر قائم ہے۔
اس کے دوسرے ہاتھ میں اشیاء کی گرانی و ارزانی کی قدرت ہے: اس حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ الله تعالیٰ اپنے بندوں پر مسلسل خرچ کرکے ان پر احسانات کی بارش کرتا رہتا ہے، لیکن بعض اوقات اپنے ہاتھ کو روک لیتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد باری ہے:
«وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ» [البقرة: 245] "اور الله تعالیٰ رزق میں کمی بھی کرتا ہے اور
(چاہے تو) فراوانی بھی کرتا ہے۔ "
اس کے علاوہ بخاری وغیرہ میں موجود مختلف روایات میں یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ ترازو الله کے ہاتھ میں ہے۔
«والله اعلم بالصواب» «يَرْفَعُ وَيَخْفِضُ»
وہی الله بلند کرتا ہے اور پست کرتا ہے۔ یعنی عزت اور ذلت، بلند کرنا اور ذلیل کرنا الله تعالیٰ کے اختیار اور قدرت میں ہے۔
الله تعالیٰ کا دوسرا ہاتھ: الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے دو ہاتھوں کے ثبوت کا ذکر قرآن مجید میں بصراحت موجود ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
«بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» [المائده: 24] بلکہ الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ اور جہاں تک لفظ "یَدْ" کا معنی قدرت کے مترادف کرنا ہے، تو یہ قرآن و سنت کی تعلیم کے متضاد ہے۔ الله تعالیٰ کا فرمان ہے۔
«لِمَا خَلَقْتُ بِیَدَیَّ» [سورة ص: 75] میں نے اپنے ہاتھوں سے پیدا کیا۔ اس آیت میں دراصل "یَدْ" کا تثنیہ مستعمل ہے، تو یہاں پر اگر یَدْ کا معنی "قدرت" کیا جائے، تو مفہوم نکلے گا۔ میں نے اپنی دو قدرتوں سے تخلیق کیا۔ اور یہ مفہوم آیت کے سراسر منافی ہے۔ اس طرح ارشاد باری:
«بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» [المائده: 24] "بلکہ ذات باری کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ "
یہاں پر بھی "یَدْ" کی تثنیہ مستعمل ہے اور قدرت کے معنی میں استعمال کرنا نامناسب ہے۔
بنابریں اگر "یَدْ" کا معنی قدرت لیا جائے، تو فرمان الٰہی
«وَالْاَرْضُ جَمِيْعًا قَبْضَتُهُ يَوْمَ الْقِيٰمَةِ» [الزمر: 67] "پورا کرہ ارض بروز قیامت الله کی مٹھی میں ہوگا۔ "
میں لفظ "قَبْضَتُهُ" مستعمل ہے، تو اس کا یہاں پر کون سا معنی مراد لیا جائے گا؟ اسی طرح "صحیح مسلم" میں عبدالله بن عمر رضی الله عنہ سے مروی ایک حدیث ہے، جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
«إِنَّ قُلُوبَ بَنِي آدَمَ كُلَّهَا بَيْنَ إِصْبَعَيْنِ مِنْ أَصَابِعِ الرَّحْمَنِ كَقَلْبٍ وَاحِدٍ .» [صحيح مسلم، كتاب القدر، رقم: 6750] "بلاشبہ تمام انسانوں کے دل رحمٰن کی انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ایک ہی دل کی طرح ثابت ہیں۔ "
اس حدیث میں ذات باری تعالیٰ کے لیے انگلیوں کا ذکر ہوا ہے۔ تو اگر "یَدْ" کا معنی قدرت ہے، تو پھر انگلیوں کی تاویل کیسے کی جائے گی؟
ہم الله تعالیٰ کی ذات کے لیے ہاتھ، انگلی، اور ہتھیلی تسلیم کرتے ہیں۔ کیونکہ یہ تمام چیزیں قرآن و سنت میں الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے ثابت ہیں۔ ہم ان چیزوں کو بلا تاویل، تشبیہ، تکییف اور تعطیل کے تسلیم کرتے ہیں۔
اور ہم ان تمام چیزوں کو الله تعالیٰ کی ذات بابرکت کے لیے اسی طرح تسلیم کرتے ہیں، جس طرح اس کی ذات کے شایان شان ہے۔
جب ہم تلاوت قرآن کرتے ہیں، تو ہمیں ذات باری تعالیٰ کے لیے لفظ یَدْ کا ثبوت مل جاتا ہے، لیکن یہ لفظ کہیں مفرد، کہیں تثنیہ اور کہیں جمع استعمال ہوا ہے:
مفرد کی مثال:
«تَبَارَكَ الَّذِىْ بِيَدِهِ الْمُلْك» (ملك: 1) "بابرکت ہے وہ ذات جس کے ہاتھ میں بادشاہت ہے۔ "
تثنیہ کی مثال:
«بَلْ یَدَاہُ مَبْسُوْطَتٰنِ» (مائدہ: 24) "بلکہ الله کے دونوں ہاتھ کشادہ ہیں۔ "
جمع کی مثال:
«أَوَلَمْ يَرَوْا أَنَّا خَلَقْنَا لَهُم مِّمَّا عَمِلَتْ أَيْدِينَا أَنْعَامًا فَهُمْ لَهَا مَالِكُونَ» (یٰس: 71) "کیا یہ دیکھتے نہیں ہیں کہ ہم نے اپنے ہاتھوں سے بنائی ہوئی چیزوں میں سے ان کے لیے چوپائے پیدا کیے، جن کے یہ مالک ہیں۔ "
ان تمام صورتوں میں تطبیق اس طرح ہوگی کہ جو سب سے پہلے ہے
(یَدْ) وہ مفرد مضاف ہے، اور وہ جمع کا معنی دے رہا ہے، لہذا وہ اس بات کے منافی نہیں کہ الله کے لیے دو ہاتھ ثابت نہ ہوں۔
رہی یہ بات کہ الله کی ذات کے لیے "اَیْدِیْنَا" "ہمارے ہاتھ" کا صیغہ جمع استعمال ہوا ہے، تو اس کا جواب یہ ہے کہ یہ جمع تعظیم کے لیے ہے نہ کہ حقیقی جمع مراد ہے، جس کا اطلاق تین یا تین سے زائد پر ہوتا ہے، اور یہ بھی منقول ہے کہ جمع کا اطلاق کم سے کم دو پر بھی ہوتا ہے، تو اس صورت میں اشکال لفظ تثنیہ پر ہو ہی نہیں سکتا۔
لہذا قرآن و حدیث سے ذات باری کے لیے دو ہاتھوں کا ثبوت ہے، اور ہم الله کے دو ہاتھوں یا کسی اور صفت کو بلا تمثیل و تعطیل
(بغیر کوئی مثال بیان کیے اور بغیر الله کو صفات سے عاری جانے) اس کی شان کے مطابق تسلیم کرتے ہیں۔
الرد علی منکر الید الیمنی الاخری: بعض جہال نے صحیفہ کی اس حدیث پر عنوان قائم کیا ہے: "الله کا دایاں اور بایاں ہاتھ"
لیکن یہ بات سراسر غلط اور جہالت پر مبنی ہے۔ الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں، ان کی کیفیت کیا ہے؟ نہیں معلوم! لیکن ہیں دونوں دائیں کما یلیق بجلاله وشانه۔ دلیل کے طور پر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی قدر ملاحظہ ہو:
«كِلْتَا يَدى الله يَمِيْنٌ» [مجمع الزوائد: 344/10] "الله تعالیٰ کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں۔ "