77- مالك عن ابن شهاب عن عطاء بن يزيد الليثي عن أبى سعيد الخدري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن.“
سیدنا ابوسعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم (اذان کی) آواز سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 77]
تخریج الحدیث: «77- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 67/1 ح 145، ك 3 ب 1 ح 2) التمهيد 134/10، الاستذكار: 124، و أخرجه البخاري (611) ومسلم (383) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 77
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 611، ومسلم 383، من حديث مالك به]
تفقه ➊ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب مؤذن «الله اكبر، الله اكبر» کہتا ہے تو تم میں سے ہر آدمی «الله اكبر، الله اكبر» کہے پھر جب مؤذن «اشهد ان لا الٰه الا الله» کہے تو یہ بھی «اشهد ان لا الٰه الا الله» کہے پھر جب مؤذن «اشهد ان محمداً رسول الله» کہے تو یہ بھی «اشهد ان محمداً رسول الله» کہے پھر جب مؤذن «حي على الصلوٰة» کہے تو یہ «لا حول ولا قوة الا بالله» کہے پھر جب مؤذن «حي على الفلاح» کہے تو یہ «لا حول ولا قوة الا بالله» کہے پھر جب مؤذن «الله اكبر، الله اكبر» کہے تو یہ بھی «الله اكبر، الله اكبر» کہے پھر جب مؤذن «لا اله الا الله» کہے، یہ بھی (سچے) دل سے «لا اله الا الله» کہے تو جنت میں داخل ہو گا۔ [صحیح مسلم 385/12] ➋ اگر جواب دینے والا «اشهد ان محمداً رسول الله» کہنے کے بعد عام دلائل کی رو سے درود پڑھ لے تو کوئی حرج نہیں ہے اور اگر مسنون جوابات پر اکتفا کر کے آخر میں درود پڑھے تو یہ بہتر ہے کیونکہ اذان کے دوران میں خاص طور پر درود پڑھنا ثابت نہیں ہے۔ ➌ اذان کے بعد مسنون درود پڑھیں اور کہیں: «اللهم رب هذه الدعوة التامة و الصلاة القائمة آت محمدان الوسيلة والفضيلة وابعثه مقاما محمودان الذى وعدته» اے اللہ! اس ساری دعوت (پکار) اور قائم رہنے والی نماز کے رب! محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کو (مقام) وسیلہ اور فضیلت عطا فرما اور تو نے ان سے جس مقام محمود کا وعدہ کیا ہے وہ عطا فرما، جو شخص اسے پڑھے گا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قیامت کے دن اللہ کے اذن سے اس کی شفاعت فرمائیں گے۔ دیکھئے: [صحيح بخاري 614، وصحيح مسلم 11/384] ➍ اس حدیث کے عموم سے ثابت ہوتا ہے کہ اقامت اور الصلوٰۃ خیر من النوم کا وہی جواب دینا چاہئیے جو مؤذن پڑھتا ہے۔ ➎ اگر اذانیں بہت زیادہ دی جائیں تو (اہل حق کی) پہلی اذان کا جواب دینا کافی ہے۔ «والله اعلم» ➏ اذان کے دوران میں انگوٹھے چومنا یا «صدقت و بررت» کے الفاظ کہنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین رحمہ اللہ علیہم سے ثابت نہیں ہیں۔ ➐ جو شخص اذان کے ساتھ کلمات مذکورہ کہے اور بعد میں دعا کرے تو اس کی دعا (ان شاء اللہ) قبول ہو گی۔ دیکھئے: [سنن ابي داؤد 524 وسنده حسن]
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 77
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 153
´اذان کا جواب ہر حالت میں مشروع ہے` «. . . وعن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا سمعتم النداء فقولوا مثل ما يقول المؤذن . . .» ”. . . سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”جب تم اذان سنو تو تم بھی اسی طرح کہتے جاؤ جس طرح مؤذن کہہ رہا ہے . . .“[بلوغ المرام/كتاب الصلاة: 153]
� فوائد ومسائل: ➊ اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جس طرح مؤذن کلمات اذان کہے اسی طرح سننے والا بھی کہتا جائے۔ اور یہ جواب ہر حالت میں مشروع ہے، خواہ انسان پاک ہو یا ناپاک، البتہ بول وبراز وغیرہ میں مصروف ہو تو جواب دینا جائز نہیں۔ ➋ «حَيَّ عَلٰي الصَّلَاة، حَيَّ عَلٰي الْفَلَاح» کے جواب میں «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِالله» کہا جائے۔ ➌ جس روایت میں یہ آیا ہے کہ جس طرح مؤذن کہے تم بھی اسی طرح کہو، تو یہ حکم عام ہے اور «حَيَّ عَلٰي الصَّلَاة، حَيَّ عَلَي الْفَلَاح» کے جواب میں «لَا حَوْل وَ لَا قُوَّةَ اِلَّا بِالله» کہنے کا حکم خاص ہے۔ اور یہ طے شدہ اصول ہے کہ خاص کو عام پر اور مقید کو مطلق پر ترجیح دی جائے گی۔ جمہور علماء کے نزدیک یہی مسنون ہے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 153
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 674
´جس طرح مؤذن کہے اسی طرح اذان سننے والا بھی کہے۔` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسا مؤذن کہتا ہے۔“[سنن نسائي/كتاب الأذان/حدیث: 674]
674 ۔ اردو حاشیہ: ➊ مؤذن کی اذان کا جواب دینا مستحب ہے یا واجب؟ جمہور استحباب کے قائل ہیں۔ ان کی دلیل صحیح مسلم کی حدیث ہے جس میں ہے کہ جب مؤذن نے اللہ اکبر کہا:، آپ نے فرمایا: ”یہ فطرت پر ہے“ اور جب شہادتین کہی تو آپ نے فرمایا: ”تو آگ سے نکل گیا۔“[صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 382] ان کے بقول آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں جواب کی بجائے یہ کلمات فرمائے ہیں، اگر جواب دیا ہوتا تو ضرور منقول ہوتا، لہٰذا یہ عدم وجوب کی دلیل ہے۔ جبکہ دیگر بعض علماء کی رائے وجوب کی ہے کیونکہ احادیث کا ظاہر یہی ہے، مزید یہ ہے کہ وجوب سے پھیرنے والا کوئی صریح قرینہ بھی موجود نہیں اور کسی چیز کا عدم ذکر اس کے عدم وجوب کا تقاضا نہیں کرتا۔ یہاں بھی ایسے ہی ہے، یعنی اس حدیث میں یہ تو نہیں کہ آپ نے جواب نہیں دیا، ممکن ہے جواب بھی دیا ہو اور یہ کلمات بھی کہے ہوں اور راوی نے بغرض اختصار حدیث میں مذکور مزید فائدے کا ذکر کر دیا اور جواب کو عام شہرت کی بنا پر ترک کر دیا ہو جیسا کہ بعض اوقات رواۃ ایسا تصرف کرتے ہیں۔ واللہ أعلم۔ مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [فتح الباري: 110/2] ➋ اذان کا جواب ساتھ ساتھ دینا بہتر اور افضل ہے، تاہم بامر مجبوری اذان کے آخر میں بھی دیا جا سکتا ہے۔ واللہ أعلم۔ ➌ تمام کلمات کے جواب میں وہی کلمات کہے جائیں گے مگر «حيَّ على الصَّلاةِ، حيَّ على الفلاحِ» کے جواب میں «لا حولَ ولا قوةَ إلا باللهِ»”گناہ سے بچنا اور نیکی کرنا اللہ تعالیٰ کی توفیق کے بغیر ممکن نہیں۔“ کہا جائے گا۔ احادیث میں اس کی صراحت ہے۔ بعض روایات میں «الصلاةُ خيرٌ مِنَ النومِ» کے جواب میں «صدقتَ وبررتَ» کے الفاظ آئے ہیں مگر یہ ثابت نہیں، لہٰذا اصل کلمات ہی کہے جائیں۔ تفصیل کے لیے کتاب کا ابتدائیہ دیکھیے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 674
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث720
´مؤذن کی اذان کے جواب میں کیا کہا جائے؟` ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم مؤذن کی اذان سنو تو اسی طرح کہو جس طرح مؤذن کہتا ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأذان والسنة فيه/حدیث: 720]
اردو حاشہ: فائدہ: مطلب یہ ہے کہ جب مؤذن (اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ) ہے تو اسے سن کر سننے والا بھی (اَللہُ اَکْبَرُ اَللہُ اَکْبَرُ) کہے۔ اسی طرح ہر کلمہ کے بعد جواب دیتا جائے۔ یہ مطلب نہیں کہ مؤذن کے فارغ ہونے کے بعد سننے والا پوری اذان دہرائے۔ دیکھیے: (صحيح مسلم، الصلاة، باب استجاب القول مثل قول المؤذن لمن سمع۔ ۔ ۔ ۔ ۔ الخ، حديث: 385)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 720
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 208
´مؤذن کی اذان کے جواب میں آدمی کیا کہے؟` ابو سعید خدری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو ویسے ہی کہو جیسے مؤذن کہتا ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 208]
اردو حاشہ: 1؎: عمر رضی اللہ عنہ کی روایت میں جس کی تخریج مسلم نے کی ہے ((سِوَى الْحَيْعَلَتَيْنِ فَيَقُوْلُ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ))”یعنی: (حَي عَلَى الصَّلَاةِ) اور (حَي عَلَى الْفَلَاحِ) کے علاوہ ان پر (لَاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) کہے“ کے الفاظ وارد ہیں جس سے معلوم ہوا کہ'حي على الصلاة اور حي على الفلاح ' کے کلمات اس حکم سے مستثنیٰ ہیں، ان دونوں کلموں کے جواب میں سننے والا (لَاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ) کہے گا۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 208
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 611
611. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:611]
حدیث حاشیہ: یعنی مؤذن ہی کے لفظوں میں جواب دو، مگر حي علی الصلوٰة اور حي علی الفلاح کے جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله کہنا چاہیے جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 611
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:611
611. حضرت ابوسعید خدری ؓ سے روایت ہے، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب تم اذان سنو تو وہی کلمات کہو جو مؤذن کہتا ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:611]
حدیث حاشیہ: (1) عنوان بندی کے متعلق امام بخاری ؒ کا یہ طریقہ ہے کہ جب اختلاف روایات یا اختلاف فقہاء قوی ہو تو عنوان میں اپنی طرف سے کوئی واضح کم بیان نہیں کرتے۔ چونکہ جواب اذان کے متعلق مختلف قسم کی روایات ہیں۔ بعض احادیث سے پتا چلتا ہے کہ جواب اذان میں بعینہ مؤذن کے الفاظ دہرا دیے جائیں جبکہ دوسری روایات سے پتا چلتا ہے کہ حي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر لا حول ولا قوة الا بالله پڑھا جائے۔ ان روایات کے پیش نطر علمائے امت کا اختلاف ہے۔ بعض کہتے ہیں کہ جواب میں بعینہ مؤذن کے الفاظ کہنے سے متعلق روایات مجمل ہیں اور جن روایات میں لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھنے کا ذکر ہے وہ مفصل ہیں، لہٰذا قاعدے کےمطابق مجمل کو مفصل پر محمول کیا جائے گا اور بعینہ مؤذن کے الفاظ دہرانے کے بجائےحي على الصلاة اور حي على الفلاح کے موقع پر لا حول ولا قوة إلا بالله کے الفاظ کہے جائیں گے، جبکہ کچھ علماء کا موقف ہے تمام اذان کے جواب میں مؤذن کے الفاظ ہی پڑھے جائیں۔ دراصل جہاں کسی سلسلے میں مختلف روایات ہوں وہاں کبھی تو اختلاف تضاد ہوتا ہے کہ ایک پرعمل جائز اور دوسری ناجائز، اور کبھی اختلاف تنوع ہوتا ہے۔ تنوع کی صورت میں کبھی تخبیر، یعنی ہر روایت پر عمل درست ہوگا کہ عمل کے لیے کسی ایک کو اختیار کرلیا جائے اور کبھی جمع کی صورت ہوگی کہ دونوں پر بیک وقت عمل کرلیا جائے۔ (2) اذان کے جواب کے متعلق تین صورتیں ممکن ہیں: ٭بعینہ وہی کلمات دہرائے جائیں جو مؤذن کہتا ہے۔ ٭حي على الصلاة اورحي على الفلاح پرلاحول ولا قوة الا بالله پڑھا جائے اور باقی کلمات مؤذن کی طرح کہے جائیں۔ ٭حي على الصلاة اورحي على الفلاح پر یہ کلمات بھی کہے جائیں اور لاحول ولا قوة إلا بالله بھی کہا جائے۔ جمہور فقہاء نے دوسرے قول کو اختیار کیا ہے۔ امام بخاری ؒ کے انداز بیان سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے، کیونکہ انھوں نے حدیث ابو سعید کو پہلے بیان کیا ہے جس میں اجمال ہے، پھر اس کے بعد حدیث معاویہ لائے ہیں جس میں تفصیل ہے تاکہ اس کے ذریعے سے پہلی روایت کے اجمال کو کھولا جائے، چنانچہ حضرت عمر بن خطاب ؓ سے مروی حدیث میں وضاحت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب مؤذن الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے اور تم میں سے کوئی اس کے جواب میں الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے، پھر مؤذن أشهد أن لا إله إلا الله کہتا ہے تو جواب میں بھی أشهد أن لا إله إلا الله کہتا ہے، پھر وہ أشهد أن محمداً رسول الله کہتا ہےتو جواب میں بھی أشهد أن محمداً رسول الله کہتا ہے، پھر جب وہ حي على الصلاة کہتا ہے تو جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله پڑھتا ہے، پھر وہ حي على الفلاح کہتا ہے تو جواب میں لا حول ولا قوة إلا بالله کہتا ہے، پھر مؤذن الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے تو وہ جواب میں بھی الله أكبر، الله أكبر کہتا ہے، آخر میں جب مؤذن لا إله إلا الله کہتا ہے تو جواب میں لا إله إلا الله کہتا ہے، اگر اس نے جوابی کلمات صدق دل سے کہے تو وہ یقینا جنت میں داخل ہوگا۔ “(صحیح مسلم، الصلاة، حدیث: 850(385) اس تفصیلی روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ اذان کا جواب دیتے وقت دوسری صورت اختیار کیا جائے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 611
الشيخ عبد السلام بھٹوی رحمہ اللہ، فوائد، صحیح بخاری ح : 611
جب تم اذان سنو تو جس طرح مؤذن کہتا ہے اسی طرح تم بھی کہو۔ [صحيح بخاري ح: 611]
فوائد:
➊ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اذان سن کر اس کا جواب دینا چاہیے۔ آج کل عموماً لوگ اذان کے وقت باتیں کرتے رہتے ہیں یا اپنے کام میں اس طرح مصروف رہتے ہیں کہ اذان کی طرف توجہ ہی نہیں کرتے، نہ اس کا جواب دیتے ہیں، حالانکہ حق یہی ہے کہ باتیں چھوڑ کر اذان سنے اور سننے کے ساتھ ساتھ جواب دیتا جائے۔ اگر کسی وجہ سے ساتھ ساتھ جواب نہ دے سکے تو بعد میں دے دے۔ اگر قرآن کی تلاوت کر رہا ہو تب بھی تلاوت چھوڑ کر جواب دینا چاہیے، کیونکہ جواب دینے کا حکم ہے جب کہ عام قرآن کی تلاوت کسی حکم کی وجہ سے نہیں ہو رہی ہوتی۔ ہاں! اگر نماز پڑھ رہا ہو تو اذان کا جواب یا چھینک والے کی «الحمد لله» کا جواب یا کسی آنے والے کے سلام کا لفظوں میں جواب دینا جائز نہیں، کیونکہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ فِي الصَّلَاةِ لَشُغْلا»[بخاري، باب لا يرد السلام فى الصلاة: 1214]”يقيناً نماز میں عظیم مشغولیت ہے۔“ قضائے حاجت میں مشغول ہو تو بعد میں جواب دے دے۔ اگر متعدد اذانیں ہوں تو کم از کم پہلی اذان کا جواب ضرور دے، بعد والی اذانوں کا جواب دے سکے تو ثواب ہے ورنہ ضروری نہیں، جس طرح نماز ایک دفعہ ضروری ہے۔
➋ اس حدیث میں ہر کلمہ کے جواب میں وہی کلمہ کہنے کا حکم ہے، البتہ اس کے بعد والی حدیث سے معلوم ہوا کہ «حَيَّ علَى الصَّلَاةِ» کے جواب میں «لاَ حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللهِ» کہنا چاہیے، کیونکہ تکبیر اور شہادتین کا جواب تو انہی کلمات کے ساتھ دیا جائے گا مگر موذن کے «حَيَّ عَلَي الصَّلَاةِ»(آؤ نماز کی طرف) کے جواب میں یہی کہنا کہ ”آؤ نماز کی طرف“ بے فائدہ بات ہے۔ اس لیے جب آپ اس کے جواب میں «لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ» کہتے ہیں تو مطلب یہ ہے کہ نماز اور فلاح کی طرف آنے کی دعوت تو قبول ہے مگر یہ کام اللہ تعالیٰ کی طرف سے توفیق اور مدد کے ساتھ ہی ہو سکتا ہے البتہ «الصلاة خير مِنَ النَّوْمِ» کے جواب میں یہی کلمہ کہا جائے گا، کیونکہ اس کے جواب میں کچھ اور بتایا نہیں گیا۔
فتح السلام بشرح صحیح البخاری الامام، حدیث/صفحہ نمبر: 611