16- وبه: عن أبى هريرة أنه كان يقول: لو رأيت الظباء ترتع بالمدينة ما ذعرتها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”ما بين لابتيها حرام.“
اور اسی سند کے ساتھ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ فرماتے تھے: اگر میں مدینے میں ہرنوں کو چرتے ہوئے دیکھوں تو انہیں ڈراؤں گا نہیں۔ (کیونکہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دو سیاہ پتھروں والی زمین کے درمیان (مدینہ کا علاقہ) حرام (حرم) ہے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 638]
تخریج الحدیث: «16- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 889/2، ح 1711، ك 45 ب 3 ح 11) التمهيد 309/6، الاستذكار: 1641، و أخرجه البخاري (1873) ومسلم(1372/471) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 638
تخریج الحدیث: [الموطأ رواية يحييٰ بن يحييٰ 889/2، ح 1711، ك 45 ب 3 ح 11، التمهيد 309/6، الاستذكار: 1641 ● و أخرجه البخاري 1873، ومسلم1372/471، من حديث مالك به] تفقه: ➊ مکہ مکرمہ کی طرح مدینہ طیبہ بھی حرم ہے جیسا کہ متواتر احادیث سے ثابت ہے۔ دیکھئے: [نظم المتناثر من الحديث المواتر للكتاني ص 212 ح 244] اسے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ درج ذیل صحابہ کرام نے بھی روایت کیا ہے: ● سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1867، و صحيح مسلم: 6613] ● سیدنا علی رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 1870، و صحيح مسلم: 1370] ● سیدنا عبداللہ بن زید بن عاصم رضی اللہ عنہ [صحيح بخاري: 2129 و صحيح مسلم: 1360] ● سیدنا رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1361] ● سیدنا جابر بن عبداللہ الانصاری رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1362] ● سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ [صحيح مسلم: 1363] وغیرہم ◄ ان احادیث صحیحہ متواترہ کے مقابلے میں بعض الناس خود ساختہ شبہات کی بنأ پر کہتے ہیں کہ «لا حرم للمدينة عندنا» ہمارے نزدیک مدینہ حرم نہیں ہے۔ ديكهئے: [ردالمحتار 278/2، الدر المختار 184/1] ➋ مدینہ میں شکار کرنا اور بے ضرر درخت اور پودے کاٹنا حرام ہے سوائے اذخر گھاس کے جس کی اجازت دی گئی ہے۔ ➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہر وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرنے کے لئے تیار رہتے تھے۔ ➍ قرآن کی طرح حدیث بھی حجت ہے اور حدیث وحی خفی ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 16
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3113
´مدینہ کی فضیلت کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! ابراہیم تیرے خلیل (گہرے دوست) اور تیرے نبی ہیں، اور تو نے مکہ کو بزبان ابراہیم حرام ٹھہرایا ہے، اے اللہ! میں تیرا بندہ اور تیرا نبی ہوں، اور میں مدینہ کو اس کی دونوں کالی پتھریلی زمینوں کے درمیان کی جگہ کو حرام ٹھہراتا ہوں“۱؎۔ ابومروان کہتے ہیں: «لابتيها» کے معنی مدینہ کے دونوں طرف کی کالی پتھریلی زمینیں ہیں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب المناسك/حدیث: 3113]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) لابة يا حره سے مراد زمین کا ایک ایسا قطعہ ہےجس میں سیاہ رنگ کے پتھر پائے جاتے ہیں۔
(2) مدینہ شریف کے مشرق اور مغرب میں اس قسم کے دو قطعات پائے جاتے ہیں جو مشرقی حرہ اور مغربی حرہ کے نام سے معروف ہیں۔ مشرقی حرہ کا نام حرہ واقم اور مغربی حرہ کا نام حرہ وبرہ ہے۔ (حاشيه صحيح مسلم از محمد فواد الباقي، الحج، باب فضل المدينه۔ ۔ ۔ ۔ وبيان حدود حرمها) مشرق ومغرب میں یہ حرم مدینہ کی حد ہیں۔ احد کے شمال میں جبل ثور اور مدینہ کے جنوب میں جبل عیر حرم مدینہ کی حد ہیں جبکہ احد پہاڑ حرم میں شامل ہے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3113
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 3921
´مدینہ کی فضیلت کا بیان` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے تھے کہ اگر میں مدینہ میں ہرنوں کو چرتے دیکھوں تو انہیں نہ ڈراؤں اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”اس کی دونوں پتھریلی زمینوں ۱؎ کے درمیان کا حصہ حرم ہے۔“[سنن ترمذي/كتاب المناقب/حدیث: 3921]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ دونوں پتھریلی زمینیں (حرہ) حرّہ غربیہ اور حرّہ شرقیہ کے نام سے معروف ہیں۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 3921
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 3330
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مدینہ حرم ہے، اس لیے جس نے اس میں جرم کیا یا مجرم کو پناہ اور ٹھکانا دیا، اس پر اللہ، فرشتوں اور سب لوگوں کی لعنت ہو، قیامت کے دن اس کے نفل اور فرض قبول نہیں کیے جائیں گے۔ [صحيح مسلم، حديث نمبر:3330]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: ان حدیثوں میں قبول نہ ہونے کا معنی یہ ہے کہ ان پر اجروثواب نہیں دے گا، اور نہ یہ گناہوں کا کفارہ بنیں گے، اور نہ ہی ان سے درجات میں رفعت وبلندی حاصل ہو گی اگرچہ وہ ان کا تارک شمار نہیں ہو گا۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 3330
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1873
1873. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: اگر میں مدینہ طیبہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انھیں ہراساں نہیں کرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کا درمیانی علاقہ قابل احترام ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1873]
حدیث حاشیہ: وہاں شکار جائز نہیں ہے۔ اس حدیث سے بھی صاف ظاہر ہوا کہ مدینہ حرم ہے۔ تعجب ہے ان حضرات پر جو مدینہ کے حرم ہونے کا انکار کرتے ہیں جب کہ حرم مدینہ کے متعلق صراحت کے ساتھ کتنی ہی احادیث نبویہ موجود ہیں۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1873
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1869
1869. حضرت ابوہریرۃ ؓ سے روایت ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کادرمیانی حصہ میری زبان سے قابل احترام ٹھہرایا گیا ہے۔“ حضرت ابو ہریرۃ ؓ کہتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ بنوحارثہ کے پاس تشریف لے گئے اور فرمایا: ”اے بنوحارثہ!میرے خیال کے مطابق تم حرم سے باہر ہو۔“ پھر آپ نے توجہ فرمائی تو کہا: ”نہیں بلکہ تم حرم کے اندر ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1869]
حدیث حاشیہ: (1) لابة سیاہ کنکریوں کی جگہ کو کہتے ہیں۔ اسے حره بھی کہا جاتا ہے۔ مدینہ کے مشرق اور مغرب میں یہ مقام واقع ہے۔ ایک کو حرہ شرقیہ اور دوسرے کو حرہ غربیہ کہتے ہیں۔ (2) بنو حارثہ، قبیلۂ اوس کی ایک شاخ اور ایک چھوٹا خاندان ہے۔ دور جاہلیت میں یہ لوگ بنو الاشہل کے ساتھ رہتے تھے۔ جب ان میں جنگ ہوئی تو بنو حارثہ شکست کھا کر خیبر کی طرف چلے گئے اور وہاں سکونت اختیار کر لی، پھر صلح کرنے کے بعد واپس وہاں آ گئے۔ پہلی دفعہ عدم توجہ کی وجہ سے فرمایا کہ تم حرم سے باہر ہو، پھر غوروخوض اور سوچ و بچار کرنے کے بعد فرمایا کہ تم حرم ہی میں ہو۔ بہرحال رسول اللہ ﷺ نے مدینہ طیبہ کے آس پاس علاقے کو حرم قرار دیا ہے۔ امام بخاری ؒ کا اس حدیث سے یہی مقصود ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1869
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1873
1873. حضرت ابو ہریرۃ ؓ سے روایت ہے انھوں نے فرمایا: اگر میں مدینہ طیبہ میں ہرن چرتے ہوئے دیکھوں تو انھیں ہراساں نہیں کرتا ہوں کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”مدینہ طیبہ کے دونوں پتھریلے کناروں کا درمیانی علاقہ قابل احترام ہے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:1873]
حدیث حاشیہ: (1) یہ روایت کئی ایک الفاظ سے مروی ہے، مثلا: لا بيتها، حرتيها، جبليها، مأزقيها۔ ان مختلف الفاظ کے پیش نظر احناف نے اس حدیث کو مضطرب قرار دیا ہے اور مدینہ کے حرم کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، حالانکہ ان الفاظ میں کوئی تضاد نہیں کیونکہ مدینہ طیبہ کے پہاڑ عموما سیاہ ہیں، اس لیے حرۃ کے معنی بھی سیاہ پتھر ہیں۔ لابة اس جگہ کو کہتے ہیں جہاں سیاہ پتھر پڑے ہوئے ہوں۔ اس سلسلے میں رسول اللہ ﷺ کا واضح فرمان ہے کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم قرار دیا اور اس کے لیے دعا فرمائی، میں نے مدینہ طیبہ کو اسی طرح حرم قرار دیا ہے جیسا کہ حضرت ابراہیم ؑ نے مکہ مکرمہ کو حرم کہا تھا۔ (صحیح البخاري، البیوع، حدیث: 2129)(2) اس میں شکار کرنے پر کوئی تاوان اور فدیہ نہیں، البتہ رسول اللہ ﷺ نے یہ فرمایا: ”جسے تم مدینہ طیبہ میں شکار کرتے دیکھو تو تمہارے لیے اس سے چھینا ہوا مال حلال ہے۔ “(مسندأحمد: 170/1) احناف کہتے ہیں کہ مدینے کا حرم فی الحقیقت حرم نہیں اور نہ وہاں شکار کرنا ہی حرام ہے، حالانکہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے کہ حرم مدینہ میں کسی قسم کا شکار نہ کیا جائے۔ (صحیح مسلم، الحج، حدیث: 3317(1362)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1873