28- وبه: عن حميد أنه سمع معاوية بن أبى سفيان عام حج وهو على المنبر وتناول قصة من شعر كانت فى يد حرسي يقول: يا أهل المدينة أين علماؤكم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم ينهى عن مثل هذه ويقول: ”إنما هلكت بنو إسرائيل حين اتخذ هذه نساؤهم.“
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے جس سال حج کیا تھا، منبر پر تشریف فرماتے ہوئے ایک پہرے دار کے ہاتھ سے بالوں کا ایک گچھا لے کر فرمایا: اے مدینے والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس (بالوں کی وگ لگانے) سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے کہ بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ایسے بال لگائے تو بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 606]
تخریج الحدیث: «28- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 947/2 ح 1829، ك 51 ب 1 ح 2) التمهيد 216/7، الاستذكار: 1765، و أخرجه البخاري (3468) ومسلم (2127) من حديث مالك به .»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 606
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 3468، ومسلم 2127، من حديث مالك به] تفقه: ➊ اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت باعث ہلاکت ہے۔ ➋ عام اہل مدینہ کا عمل اگر کتاب و سنت کے خلاف ہو تو حجت نہیں ہے۔ ➌ مالک بن ابی عامر الاصحبی المدنی رحمہ اللہ (تابعی کبیر) نے فرمایا: «ما أعرف شيئاً مما أدركت عليه الناس إلا النداء بالصلوٰة» ”میں نے (مدینے کے) لوگوں کو جس پر پایا ہے اس میں سوائے نماز کی اذان کے میں کچھ بھی (کتاب و سنت کے مطابق) نہیں جانتا۔“[موطأ امام مالك رواية يحييٰ 72/1 ح 152، وإسناده صحيح] ➍ بالوں میں وگ لگانا حرام ہے۔ ➎ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر علماء کا فرض منصبی ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 28
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث5247
´بالوں میں جوڑ لگانے کا بیان۔` حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کو سنا، وہ مدینے میں منبر پر تھے، انہوں نے اپنی آستین سے بالوں کا ایک گچھا نکالا اور کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع فرماتے ہوئے سنا ہے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب ان جیسی چیزوں کو اپنانا شروع کیا تو وہ ہلاک و برباد ہو گئے۔“[سنن نسائي/كتاب الزاينة (من المجتبى)/حدیث: 5247]
اردو حاشہ: ”کہاں ہیں“ یعنی وہ تمہیں ان کاموں سے روکتے کیوں نہیں؟ باقی کےلیے تفصیل ملاحظہ فرمائیے، حدیث:5095۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 5247
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4167
´دوسرے کے بال اپنے بال میں جوڑنے پر وارد وعید کا بیان۔` حمید بن عبدالرحمٰن سے روایت ہے کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے جس سال حج کیا میں نے آپ کو منبر پر کہتے سنا، آپ نے بالوں کا ایک گچھا جو ایک پہرے دار کے ہاتھ میں تھا لے کر کہا: مدینہ والو! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان جیسی چیزوں سے منع کرتے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے: ”بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے جس وقت ان کی عورتوں نے یہ کام شروع کیا۔“[سنن ابي داود/كتاب الترجل /حدیث: 4167]
فوائد ومسائل: بالوں کو دوسرے بال لگا کر لمبا کرنا حرام ہے، جیسے کہ آج کل وِ گ کا رواج ہے۔ اللہ کی شریعت اور انبیاء علیہم السلام کی کی تعلیم سے بغاوت کی بنا پر قومیں ہلاک کردی جاتی ہیں۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4167
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2781
´زائد بالوں کا گچھا اپنے بال میں جوڑنے کی حرمت کا بیان۔` حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ میں نے معاویہ رضی الله عنہ کو مدینہ میں خطبہ کے دوران کہتے ہوئے سنا: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان زائد بالوں کے استعمال سے منع کرتے ہوئے سنا ہے اور آپ کہتے تھے: ”جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اسے اپنا لیا تو وہ ہلاک ہو گئے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الأدب/حدیث: 2781]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہوا کہ مزید بال لگا کر بڑی چوٹی بنانا یہ فتنہ کا باعث ہے، ساتھ ہی یہ زانیہ و فاسقہ عورتوں کا شعار بھی ہے، بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب یہ شعار اپنایا تو لوگ بدکاریوں میں مبتلا ہو گئے، اور نتیجۃ ہلاک و برباد ہو گئے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 2781
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:611
611- حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں:میں نے عاشورہ کے دن سیدنا معاویہ بن سفیان رضی اللہ عنہ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر پر سنا۔انہوں نے اپنی آستین میں سے بالوں کی ”وگ“ نکالی۔اور بولے: اے اہل مدینہ! تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اسے استعمال کرنے سے منع کرتے ہوۓ سناہے:آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”بنی اسرائیل اس وقت ہلاکت کا شکار ہوگئےجب ان کی خواتین نے اسے استعمال کرنا شروع کیا۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:611]
فائدہ: اس حدیث میں وگ سے منع کیا گیا ہے، اور یہ حکم ہے، عورت اور مرد تمام اس ممانعت میں شامل ہیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لـعـن الـلـه الـواصـلة والمستوصلة۔۔۔۔» اللہ تعالیٰ نے بالوں کے ساتھ بال پیوند کر نے والی اور کروانے والی پرلعنت فرمائی ہے۔ [صحيح البخاري: 5933] سیدہ اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے کہا: میں نے اپنی بیٹی کا نکاح کیا تھا، پھر اس کو بیماری لاحق ہوئی اور سر کے بال گر گئے، اس کا خاوند خواہش مند ہے کہ میں اس کے بالوں میں مصنوعی بال (موجودہ نام وگ) جوڑ دوں، آپ کی فرمائیے کہ کیا میں اس کے مصنوعی بال لگا سکتی ہوں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مصنوعی بال لگانے اور لگوانے والی پر لعنت فرمائی۔ [صحيح البخاري: 5935 صحيح مسلم: 2122] حمید بن عبدالرحمن بن عوف رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا معاویہ بن ابوسفیان رضی اللہ عنہ سے اس سال سنا جب انہوں نے حج کیا اور وہ منبر پر تھے، وہ غلام کے ہاتھ سے بالوں کا ایک جوڑا (وگ) لے کر کہہ رہے تھے: اے مدینہ والو تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے جوڑے (وگ) سے منع کرتے تھے اور کہتے تھے: جب بنی اسرائیل کی عورتوں نے اس طرح بنانا شروع کیا تو اس وقت بنی اسرائیل ہلاک ہو گئے۔ [صحيح البخاري: 5932 صحيح مسلم: 2127] ان احادیث صحیحہ سے معلوم ہوا کہ وگ لگانا مطلقاً حرام ہے، اور یہ ملعون فعل ہے جس سے بچنا ہر مسلمان پر فرض ہے۔ ڈاکٹر صالح بن فوزان رحمہ اللہ لکھتے ہیں: جس طرح خواتین کو بلا ضرورت سر کے بالوں کو منڈوانے یا چھوٹا کرانے سے روکا گیا ہے، اسی طرح انھیں اپنے بالوں میں مزید دوسرے بالوں کو جوڑ کر اضافہ کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے، (خواتین کے دینی مسائل ص: 30) افسوس! اس حرام کام کے مرتکب بہت سے مرد اور عورتیں پائے جاتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ اپنے آپ کو ممنوع کاموں کے ذریعے خوبصورت بنانا حماقت ہے۔ قرآن و حدیث کی تعلیمات کے تحت رہ کر جائز کاموں کے ذریعے خوبصورتی حاصل کرنے میں ہی کا میابی ہے، ورنہ دنیا اور آخرت میں پچھتاوے کے سوا کچھ نہیں ملے گا۔ اگر مکمل سر گنجا ہو جائے تو وگ کا استعمال کیسا ہے؟ شیخ محمد بن صالح العثیمین رحمہ اللہ لکھتے ہیں: وگ وغیرہ کا پہننا حرام ہے اور یہ’واصلہ‘ والی حدیث میں داخل ہے، اگر چہ یہ صریح طور پر وصل نہیں لیکن اس میں چونکہ عورت کا سر اصل حقیقت سے دور دکھائی دیتا ہے، اس لیے وصل سے ایک حد تک اس کی مشابہت ہو جاتی ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”واصلہ“(بالوں کے ساتھ اور بال ملانے والی عورت) اور ”مستوصلہ“(بالوں کے ساتھ اور بال ملانے کا کام کرنے والی عورت) پر لعنت کی ہے، البتہ اگر عورت کے سر پر بال موجود ہی نہ ہوں یا اسے گنجا پن کا مرض لاحق ہو جائے تو پھر اس عیب کو چھپانے کے لیے وگ وغیرہ کا استعمال جائز ہے، کیونکہ کسی بھی عیب کا ازالہ جائز ہوتا ہے، اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص کو سونے کی ناک لگوانے کی اجازت دی تھی جس کی ناک ایک جنگ میں کٹ گئی تھی، بلکہ اس مسئلہ (ازالہ عیب) میں اس سے کہیں زیادہ توسع پایا جاتا ہے اور تحسین و جمیل اور پلاسٹک سرجری وغیرہ سے متعلقہ بہت سے مسائل اس میں زیر بحث آ سکتے ہیں مثلا پلاسٹک سرجری کی مدد سے ناک چھوٹی کروانا۔۔۔ وغیرہ، ان سب صورتوں میں سے جن صورتوں کا تعلق ازالہ عیب کے ساتھ ہو، وہ جائز ہے، مثلاً کسی کی ناک ٹیڑھی ہو تو وہ اسے سیدھی کروا سکتا ہے، اس طرح اگر کسی کے جسم پر سیاہ دھبے ہوں تو انھیں صاف کروانے میں کوئی قباحت نہیں ہے لیکن اگر یہ چیزیں ازالہ عیب کی بجائے مخض فیشن کی خاطر اپنائی جائیں مثلاً بھنویں بار یک کروانا جسم میں گودائی کروانا۔۔۔ تو پھر یہ صریح طور پر ممنوع ہیں، اسی طرح ازالہ غیب سے ہٹ کر اگر وگ وغیرہ استعمال کی جائے تو وہ بھی حرام ہے، اگر چہ عورت اپنے خاوند کی اجازت و رضامندی کے ساتھ ہی ایسا کرے، کیونکہ جس چیز کو اللہ تعالیٰ حرام قرار ے دیں، وہ کسی اور کی اجازت و رضا مندی سے حلال نہیں ہو سکتی۔ (فتاوی المراة المسلمة: 2/ 518، بحوالہ سہ ماہی فکر ونظر، جلد: 41، شمارہ: 3 صفحہ: 104، 105، سن: 2004ء) نیز دیکھیں: (زیبائش نسواں ص: 151) راقم الحروف کے نزدیک راجح بات یہ ہے کہ اگر کسی کے سر کے مکمل بال ختم ہو گئے ہوں تو وہ ازالہ عیب کے لیے مندرجہ ذیل وجوہات کی بنا پر وگ نہیں لگا سکتا: ① احادیث میں بالصراحت بالوں کے ساتھ اور بال جوڑ نے (یعنی وگ) سے منع کیا گیا ہے۔ ② قطعی نص کی موجودگی میں قیاس سے مسئلہ اخذ کر نامحل نظر ہے، جب نص موجود ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کو مصنوعی بال (وگ) لگانے سے منع کر دیا تھا، حالانکہ اس کے سر کے سارے بال گر گئے تھے، اب اس حدیث کی موجودگی میں اس حدیث پر قیاس کرنا جس میں ہے کہ رسول اللہ سی نے ایک صحابی کو سونے کی ناک لگانے کی اجازت دی تھی، جبکہ اس کی ناک جنگ میں کٹ گئی تھی محل نظر ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر کسی آدمی کی ناک کٹ جائے تو نئی بناوٹی ناک لگوانا جائز ہے کیونکہ اس کا جواز مل رہا ہے، اور اس سے منع بھی نہیں کیا گیا، لیکن مصنوعی بال لگوانے کی ممانعت موجود ہے، اب وہ دلیل مطلوب ہے جس میں مصنوعی بال لگوانے کی اجازت ہو۔ ③ فیشن کی شرط لگانا بھی محل نظر ہے کیونکہ اس کے لیے بھی نص صریح چاہیے، کیونکہ کہا جا تا ہے کہ اگر وگ لگانا فیشن کی وجہ سے ہو تو حرام ہے، اور یہی وگ اگر فیشن کی وجہ سے نہ ہو تو جائز ہے، یہ (تفریق) قرآن وحدیث سے ثابت ہے؟ ④ جب گنجے پن کوختم کرنے کا علاج موجود ہے جس کا جواز بھی معلوم ہوتا ہے تو اس علاج کی موجودگی میں حرام اور ممنوع فعل مصنوعی بال (وگ) لگوانے یا جواز کا فتویٰ دینا بہر حال درست نہیں ہے۔ (بالوں کا معاملہ، ص: 44 تا 47)
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 611
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5578
حمید بن عبدالرحمٰن بیان کرتے ہیں کہ جس سال حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج کیا، منبر پر بالوں کا ایک گچھا پکڑ کر، جو ایک محافظ کے ہاتھ میں تھا، میں نے ان سے یہ کہتے سنا، اے اہل مدینہ، تمہارے علماء کہاں ہیں؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قسم کے کام سے روکتے ہوئے سنا، آپﷺ نے فرمایا: ”بنو اسرائیل بس اس وقت ہلاک ہوئے، جب ان کی عورتوں نے اس قسم کے کاموں کو اپنا لیا۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5578]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: حرسي: باڈی گارڈ، محافظ، پہریدار۔ فوائد ومسائل: یہ حج حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کا اپنے دور خلافت میں آخری حج تھا، جو انہوں نے 51ھ میں کیا، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے، اگر کسی برائی کا ظہور ہو رہا ہو تو علماء کو اس سے روکنا چاہیے، اور ارباب اختیار، حکمران بھی اگر کسی برائی کو پھیلتے دیکھیں تو علماء کو بھی اس کی طرف متوجہ کریں، اگر برائی کے خلاف کوئی بھی آواز بلند نہیں کرے گا تو ہلاکت و تباہی کا خطرہ ہے اور عورتوں کے فیشن ہی تباہی و بربادی کا پیش خیمہ بنتے ہیں اور ہماری بدقسمتی ہے، آج روز عورتوں میں بے حیائی اور عریانی بڑھ رہی ہے، اور وہ نت نئے فیشن نکال رہی ہیں، لیکن کوئی انہیں روکنے ٹوکنے والا نہیں ہے، بلکہ خود حکومت اس کو غذا فراہم کر رہی اور اس کی کا باعث بن رہی ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5578
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3468
3468. حضرت حمید بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ جس سال امیر معاویہ ؓحج پر تشریف لے گئے تو انھوں نے منبر پر ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ انھوں نے مصنوعی بالوں کا گچھا لیا۔ جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ! تمھارےعلماء کہاں ہیں؟ میں نےنبی ﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیے تو وہ ہلاک ہو گئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3468]
حدیث حاشیہ: تمہارے علماء کدھر گئے یعنی کیاتم کومنع کرنے والے علماءختم ہوگئے ہیں۔ معلوم ہواکہ منکرات پر لوگوں کومنع کرنا علماء کا فرض ہے۔ دوسروں کےبال اپنے سرمیں جوڑنا مرادہے۔ دوسری حدیث میں ایسی عورت پرلعنت آئی ہے۔ معاویہ کا یہ خطبہ 61ھ سےمتعلق ہے۔ جب آپ اپنی خلافت میں آخری حج کرنے آئے تھے، اکثر علماء صحابہ انتقال فرماچکے تھے۔ حضرت امیر نے جہال کےایسے افعال کودیکھ کر یہ تاسف ظاہر فرمایا۔ نبی اسرائیل کی شریعت میں بھی یہ حرام تھامگر ان کی عورتوں نے اس گناہ کا ارتکاب کیا اور ایسی حرکتوں کی وجہ سے بنی اسرائیل تباہ ہوگئے۔ معلوم ہوا کہ محرمات کےعمومی ارتکاب سےقومیں تباہ ہوجاتی ہیں۔ حضرت معاویہ بن ابی سفیان ؓ قریشی اور اموی ہیں۔ ان کی والدہ کانام ہندبنت عتبہ ہے۔ حضرت معاویہ خود اور ان کے والد فتح مکہ کےدن مسلمان ہوئے۔ یہ مولفۃ القلوب میں داخل تھے۔ بعدمیں آنحضرت ﷺ کےمراسلات لکھنے کی خدمت ان کو سونپی گئی۔ اپنے بھائی یزید کےبعد شام کے حاکم مقرر ہوئے۔ حضرت عمر کےزمانہ سے وفات تک حاکم ہی رہے۔ یہ کل مدت بیس سال ہے۔ حضرت عمر کےدور خلافت میں تقریبا 4 سال اورحضرت عثمان کی پوری مدت خلافت اورحضرت علی کی پوری مدت خلافت اور ان کے بیٹے حضرت حسن کی مدت خلافت یہ کل بیس سال ہوئے۔ ا س کے بعد حضرت حسن بن علی ؓ نے 41ھ میں خلافت ان کی سپرد کردیا توحکومت مکمل طور پر ان کو حاصل ہوگئی اورمکمل بیس سال تک زمام سلطنت ان کے ہاتھ میں رہی۔ بمقام دمشق رجب سہ 60 ھ میں 84 سال کی عمر میں ان کاانتقال ہوگیا۔ آخر عمر میں لقوہ کی بیماری ہوگئی تھی۔ اپنی زندگی کے آخری ایام میں فرمایا کرتے تھے کاش میں وادی ذی طویٰ میں قریش کا ایک آدمی ہوتا اور یہ حکومت وغیرہ کچھ نہ جانتا۔ ان کی زندگی میں بہت سےسیاسی انقلابات آتے جاتے رہے۔ انتقال سے پہلے ہی اپنے بیٹے یزید کو زمام حکومت سونپ کرسکدوش ہوگئے تھے۔ مگر یزید بعد میں ان کا کیسا جانشین ثابت ہوا یہ دنیائے اسلام جانتی ہے۔ تفصیل کی ضرورت نہیں۔ حضرت معاویہ کی والدہ ماجدہ حضرت ہندہ بنت عتبہ بڑی عاقلہ خاتون تھیں۔ فتح مکہ کے دن دوسری عورتوں کےساتھ انہوں نے بھی آنحضرت ﷺ کی دست مبارک پر اسلام کی بیعت کی تو آپ نے فرمایا کہ خدا کےساتھ کسی کوشریک نہ کرو اور نہ چوری کروگی توہندہ نےعرض کیاکہ میرے خاوند ابوسفیان ہاتھ روک کر خرچ کرتے ہیں جس سے تنگی لاحق ہوتی ہے توآپ نےفرمایا کہ تم اس قدر لے لو جوتمہارے اور تمہاری اولاد کےلیے حسب دستور کافی ہو۔ آپ نے فرمایا کہ اور زنا نہ کرو گی، ہندہ نےعرض کیا کہ آیا کوئی شریف عورت زنا کارہوسکتی ہے؟ آپ نے فرمایا کہ اپنے بچوں کوقتل نہ کروگی تو ہندہ نے عرض کیا کہ آپ نے ہمارے سب بچوں کوقتل کرادیا۔ ہم نے تو چھوٹے چھوٹے بچوں کو پرورش کیا اوربڑے ہونے پر آپ نے ان کابدر میں قتل کرادیا۔ حضرت عمر کی خلافت کے زمانے میں وفات پائی۔ اسی روز حضرت ابوقحافہ ابوبکر کووالد ماجد کاانتقال ہوا۔ رحمهم اللہ أجمعین۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3468
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3468
3468. حضرت حمید بن عبد الرحمٰن سے روایت ہے کہ جس سال امیر معاویہ ؓحج پر تشریف لے گئے تو انھوں نے منبر پر ان کو یہ فرماتے ہوئے سنا جبکہ انھوں نے مصنوعی بالوں کا گچھا لیا۔ جو ان کے چوکیدار کے ہاتھ میں تھا۔ آپ نے فرمایا: اے اہل مدینہ! تمھارےعلماء کہاں ہیں؟ میں نےنبی ﷺ کو اس سے منع کرتے ہوئے سنا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”بنی اسرائیل کی عورتوں نے جب اس طرح اپنے بال سنوارنے شروع کر دیے تو وہ ہلاک ہو گئے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:3468]
حدیث حاشیہ: 1۔ حضرت امیر معاویہ ؓ نے اہل مدینہ کو منکرات و فواحش پھیلنے اور ان کی روک تھام سے غفلت برتنے پر ڈانٹ پلائی کہ مدینہ طیبہ کے علماء ایسی بری چیزوں سے کیوں منع نہیں کرتے اور ایسی منکرات کو روکنے سے غافل کیوں ہیں۔ 2۔ اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ خلاف شرع امور کا ازالہ حکمرانوں کا اہم فریضہ ہے کیونکہ ایسے امور قوموں کی تباہی کا باعث بنتے ہیں۔ اسی طرح عورتوں کا جاذب نظر لباس پہن کر بازاروں میں نکلنا اور لوگوں کی دعوت نظارہ دینا یہ اللہ تعالیٰ کے غضب کو دعوت دیتا ہے۔ 3۔ مصنوعی بال لگانا کبیرہ گناہ ہے رسول اللہ ﷺ نے ان کے لگانے پر لعنت فرمائی ہے۔ بنی اسرائیل میں ان کا استعمال حرام تھا مگر جب ان کی عورتوں نے اس جرم کا ارتکاب کیا اور انھیں کوئی روکنے والا نہ تھا تو ایسی حرکتیں بنی اسرائیل کی تباہی کا باعث ہوئیں ہمارے معاشرے میں بھی یہ وبا عام ہے۔ اللہ تعالیٰ اس سے بچنے کی توفیق دے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3468