الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


موطا امام مالك رواية ابن القاسم
اخلاق و آداب سے متعلق مسائل
18. غیر مسلم کے سلام کا جواب
حدیث نمبر: 480
292- وبه: قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ”إن اليهود إذا سلم عليكم أحدهم فإنما يقول: السام عليكم، فقل: عليك.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہودیوں میں سے کوئی جب تمہیں سلام کہتا ہے تو «السام عليكم» (تم پر موت ہو یعنی تم مر جاؤ) کہتا ہے پس تم جواب دو: «عليك» (تجھ پر)۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 480]
تخریج الحدیث: «292- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 960/2 ح 1856، ك 53 ب 2 ح 3) التمهيد 87/17، الاستذكار: 1792، و أخرجه البخاري (6257) من حديث مالك به و مسلم (2164) من حديث عبداللٰه بن دينار به.»

قال الشيخ زبير على زئي: سنده صحيح

   صحيح البخارياليهود إذا سلموا على أحدكم إنما يقولون سام عليك فقل عليك
   صحيح البخاريإذا سلم عليكم اليهود فإنما يقول أحدهم السام عليك فقل وعليك
   صحيح مسلماليهود إذا سلموا عليكم يقول أحدهم السام عليكم فقل عليك
   جامع الترمذياليهود إذا سلم عليكم أحدهم فإنما يقول السام عليكم فقل عليك
   سنن أبي داوداليهود إذا سلم عليكم أحدهم فإنما يقول السام عليكم فقولوا وعليكم
   موطا امام مالك رواية ابن القاسمإن اليهود إذا سلم عليكم احدهم فإنما يقول: السام عليكم، فقل: عليك
   مسندالحميدي

موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم کی حدیث نمبر 480 کے فوائد و مسائل
  حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 480  
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6257، من حديث مالك، ومسلم 2164، من حديث عبدالله بن دينار به]
تفقه
➊ کفار کو السلام علیکم نہیں کہنا چاہئے۔ اگر وہ سلام کریں تو وعلیکم سے ان کو جواب دینا چاہئے۔
➋ یہود ونصاریٰ اور تمام کفار مسلمانوں کے پکے دشمن ہیں اور اس دشمنی میں وہ سب متفق ہیں۔
➌ سلام کا جواب دینا واجب اور ضروری ہے۔
➍ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں اگر کوئی کافر صریح گستاخی کرے تو دوسرے دلائل کی رُو سے اُسے قتل کردیا جائے گا۔ دیکھئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور کتاب: الصارم المسلول علیٰ شاتم الرسول۔‏‏‏‏ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
➎ ایک یمنی شخص نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کے نابینا ہونے کے بعد والے دور میں آپ کو سلام کہا:۔ السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ کے بعد اس شخص نے کچھ کلمات کا اضافہ کیا تو عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: سلام تو برکاتہ پر ختم ہوگیا ہے۔ [الموطأ 2/959 ح1855، وسنده صحيح]
➏ اگر کوئی شخص کسی کے خلاف سخت زبان استعمال کرے تو شرعی حدود کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سختی کے ساتھ اس کا جواب دیا جاسکتا ہے۔
   موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 292   

تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
  الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:671  
671- سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی ہے: جب کوئی یہودی تمہیں سلام کرتے ہوئے السام علیک (تمہیں موت آئے) کہے، تو تم کہو علیک (یعنی تمہیں بھی آئے)۔‏‏‏‏ عبداللہ بن دینار کہتے ہیں: ایک شخص پہلے یہودی تھا پھر اس نے اسلام قبول کرلیا وہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو سلام کرتا تھا، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما اسے جب بھی سلا م کا جواب دیتے تھے تو ہمیشہ علیک ہی کہا: کرتے تھے۔ اس نے عرض کی: اے ابوعبدالرحٰمن! میں مسلمان ہوچکا ہوں، تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما پھر بھی علیک ہی کہا کرتے تھے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:671]
فائدہ:
اس سے معلوم ہوا کہ غیر مسلم سلام کہے تو جواب میں صرف وعلیک کہنا چاہیے، اور غیر مسلم کو سلام میں پہل نہیں کرنی چاہیے۔
   مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 671   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6257  
6257. حضرت عبداللہ بن عمر ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جب یہودی تمہیں سلام کرتے ہیں تو ان میں سے کوئی السام علیك تم پر موت آئے ہی کہتا ہے لہذا تم اس کے جواب میں صرف وعلیك کہو، یعنی تمہیں بھی ایسا ہی پیش آئے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6257]
حدیث حاشیہ:
اس حدیث کا پس منظر یہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ اہل کتاب ہمیں سلام کہتے ہیں تو ہم انھیں کسی طرح جواب دیں؟ آپ نے فرمایا:
"تم انھیں"وعلیکم" کہا کرو۔
" یعنی السلام کا لفظ نہ بولا کرو۔
(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 5207)
بلکہ حضرت انس رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں مزید وضاحت ہے کہ ایک یہودی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا تو اس نے "السام علیك" کہا، یعنی آپ پر ہلاکت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جواب میں صرف "وعلیك" کہا، یعنی تجھ پر بھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سے فرمایا:
تمھیں معلوم ہے کہ اس نے کیا کہا تھا؟ اس نے "السام علیك" کہا تھا۔
صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:
ہم اسے قتل نہ کر دیں؟ آپ نے فرمایا:
نہیں، بلکہ جب تم پر اہل کتاب اس انداز سے سلام کہیں تو تم جواب میں "وعلیکم" کہہ دیا کرو۔
(صحیح البخاری، استتابة المرتدین، حدیث: 6926)
اسی طرح ایک روایت میں ہے کہ یہودی کو پکڑکر پوچھا تو اس نے اس بات کا اقرار کرلیا تو آپ نے فرمایا:
اس نے جو کہا تھا وہی اسے واپس کردو۔
(الأدب المفرد، حدیث: 1105)
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6257   

  الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6928  
6928. حضرت ابن عمر ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: یہودی لوگ جب تم میں سے کسی کو سلام کرتے ہیں تو سام علیك تم پر موت ہو کہتے ہیں۔ تم جواب میں یہی کہہ دیا کرو: تم پر بھی یہی کچھ ہو۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6928]
حدیث حاشیہ:
(1)
قوم یہود کی یہ گندگی اور بری فطرت تھی کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا کسی مسلمان کو سلام کہتے تو اپنے دل کی بھڑاس اس طرح نکالتے کہ ان الفاظ میں سلام کرتے:
تم پر موت یا ہلاکت ہو۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کا نوٹس اس طرح لیتے کہ ان کے الفاظ ہی ان کے منہ پر مار دیتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی یہی تلقین فرمائی کہ ان کے متعلق بدزبانی کرنے کے بجائے ان کے اپنے الفاظ ہی انھیں واپس کر دیے جائیں۔
اس انداز سے ان کی بددعا خود ان کے لیے ہی موجب وبال اور باعث عذاب ہوگی۔
اگر وہ علانیہ طور پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کریں تو پھر انھیں قتل کر دیا جائے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کعب بن اشرف اور ابو رافع یہودی کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا۔
(2)
دور حاضر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاکے بنا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین وتنقیص کرنے والوں کا بھی یہی حکم ہے اور یہ ناقابل معافی جرم ہے کیونکہ انھیں معاف کر دینے کا خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حکم ہے جواب موجود نہیں ہیں۔
ہم نے اس موضوع پر ایک مفصل فتویٰ لکھا تھا جو فتاویٰ اصحاب الحدیث کی دوسری جلد میں دیکھا جا سکتا ہے۔
واللہ المستعان
   هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6928