79- وبه: عن عطاء بن يزيد الليثي عن أبى أيوب الأنصاري أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”لا يحل لمسلم أن يهجر أخاه فوق ثلاث ليال، يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا، وخيرهما الذى يبدأ بالسلام.“
سیدنا ابوایوب الانصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ تین راتوں سے زیادہ اپنے بھائی سے بائیکاٹ کرے (ایسا نہ ہو کہ) جب ان کی ملاقات ہو تو ایک بھائی دوسرے سے منہ پھیر لے اور دوسرا اس سے منہ پھیر لے۔ ان دونوں میں سے بہتر وہ ہے جو دوسرے کو پہلے سلام کرے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 469]
تخریج الحدیث: «79- متفق عليه، الموطأ (رواية يحييٰ بن يحييٰ 906/2، 907 ح 1747، ك 47 ب 4 ح 13) التمهيد 145/10، الاستذكار: 1679، و أخرجه البخاري (6077) ومسلم (2560) من حديث مالك به.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 469
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 6077، ومسلم 2560، من حديث مالك به]
تفقه ➊ مسلمان کا بغیر کسی شرعی عذر کے دوسرے مسلمان سے تین دن رات سے زیادہ ہجر (بائیکاٹ کرنا) حرام ہے۔ نیز دیکھئے: [ح4، 443] ➋ مسلمان کا اپنے صحیح العقیدہ مسلمان بھائی کو سلام کہنے میں پہل کرنا بہت نیکی کا کام ہے۔ سیدنا ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «إِنَّ أَوْلَى النَّاسِ بِاللهِ مَنْ بَدَأَهُمْ بِالسَّلَامِ»”لوگوں میں سب سے زیادہ اللہ کے قریب وہ شخص ہے جو (انہیں) سلام کہنے میں ابتدا (پہل) کرے۔“[سنن ابي داؤد: 5197 وسنده صحيح وحسنه ابن الملقن فى تحفة المحتاج: 1624] ➌ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہر ہفتے میں پیر اور جمعرات کے دن دو دفعہ لوگوں کے اعمال (اللہ کے سامنے) پیش کئے جاتے ہیں پھر ہر مومن کی مغفرت کر دی جاتی ہے سوائے اس بندے کے جو اپنے بھائی سے بغض رکھتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو اس وقت تک چھوڑ دو جب تک یہ صلح نہ کر لیں۔ [الموطأ رواية يحييٰ 2/909 ح1752، وسنده صحيح] یہ روایت صحیح مسلم [2565] میں مرفوعاً یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کلام مبارک سے موجود ہے، لہٰذا یہ حدیث مرفوعاً اور موقوفاً دونوں طرح صحیح ہے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 79
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259
تین دن سے زیادہ بول چال چھوڑنا حلال نہیں «وعن ابي ايوب رضى الله عنه ان رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم قال: لا يحل لمسلم ان يهجر اخاه فوق ثلاث ليال يلتقيان فيعرض هذا ويعرض هذا وخيرهما الذى يبدا بالسلام . متفق عليه» سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ”کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“ بخاري و مسلم۔ [بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1259]
فوائد: ➊ تین راتوں سے زیادہ حلال نہ ہونے سے صاف ظاہر ہے کہ تین راتوں سے زیادہ آپس میں بول چال چھوڑ دینا حرام ہے۔ کیونکہ بات چیت چھوڑ دی تو سارے حقوق ہی ضائع کر دیئے جو ایک دوسرے پر واجب تھے مثلاً سلام، قبول دعوت، عیادت، چھینک کا جواب وغیرہ۔ تین رات تک باہمی گفتگو چھوڑنا جائز ہے کیونکہ ناراضگی اور غصہ انسانی فطرت ہے۔ اسے مدنظر رکھتے ہوئے اتنی رعایت دی گئی ہے تاکہ پہلے دن غصے میں ٹھہراؤ آ جائے دوسرے دن انسان کچھ سوچے تیسرے دن واپس لوٹ آئے عموماً تین دنوں میں غصہ ختم یا کم ہو جاتا ہے۔ اس سے زیادہ قطع تعلق کرے گا تو قطع حقوق لازم آئے گا۔ ➌ قطع تعلق جو حرام ہے سلام کہنے سے ختم ہو جاتا ہے۔ عائشہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «لا يكون لمسلم ان يهجر مسلما فوق ثلاثة فإذا لقيه سلم عليه ثلاث مرار كل ذلك لا يرد عليه فقد باء بإثمه» [ ابوداود 4913 ] ”کسی مسلمان کے لئے جائز نہیں کہ کسی مسلمان کو تین دن سے زیادہ چھوڑ دے۔ پس جب وہ اسے ملے تو اسے تین دفعہ سلام کہے اگر (دوسرا آدمی) ہر دفعہ اسے جواب نہیں دیتا تو وہ اس کے گناہ کے ساتھ لوٹے گا۔“ امام احمد رحمہ الله نے فرمایا کہ اگر دوسرے بھائی کو اس کے بات نہ کرنے سے تکلیف ہوتی ہو تو صرف سلام سے قطع تعلق ختم نہیں ہو گا بلکہ پہلے جیسے تعلقات بحال کرنے سے ختم ہو گا۔ مگر اوپر والی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حرام وہ صورت ہے جس میں دونوں ملتے ہیں مگر منہ پھیر لیتے ہیں اور سلام تک نہیں کہتے۔ البتہ اس میں شک نہیں کہ اخوت دینی جس تعلق کا تقاضا کرتی ہے وہ پہلے تعلقات مکمل بحال کرنے سے ہی حاصل ہو سکتا ہے۔ ➍ اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے کسی کے ساتھ بول چال بند کر دینا جائز ہے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کعب بن مالک اور ان کے ساتھیوں کے جنگ تبوک میں پیچھے ره جانے کی وجہ سے مسلمانوں کو ان کے ساتھ بات چیت کرنے سے منع فرما دیا تھا۔ معلوم ہوتا ہے کہ یہ قطع کلام مخلص ساتھیوں کے لئے ہے جن پر بات چیت چھوڑنے سے اثر پڑتا ہو اور وہ حق کی طرف پلٹ آنے والے ہوں ورنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں نے کفار اور منافقین سے بات چیت ترک نہیں فرمائی کفار اور منافقین کے ساتھ قطع تعلق دل سے ہوتا ہے زبان سے نہیں۔ البتہ مخلص مسلمانوں سے ظاہری عتاب ترک کلام سے ہوتا ہے دل سے قطع تعلق نہیں ہوتا۔
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 89
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1259
´نیکی اور صلہ رحمی کا بیان` سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” کسی مسلمان کیلئے یہ حلال نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین روز سے زیادہ قطع تعلق رکھے۔ جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو یہ اپنا منہ ادھر کر لے اور وہ ادھر کر لے۔ دونوں میں بہتر انسان وہ ہے جو سلام میں پہل کرے۔“(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1259»
تخریج: «أخرجه البخاري، الأدب، باب الهجرة، حديث:6077، ومسلم، البر والصلة، باب تحريم الهجر فوق ثلاثة أيام بلا عذر شرعي، حديث:2560.»
تشریح: 1. اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر دو مسلمان بھائیوں کی ناراضی ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ہو تو ایسی صورت میں تین روز سے زیادہ ناراض رہنا جائز نہیں ہے لیکن اگر ناراضی کی وجہ دینی معاملہ ہو تو اس کے لیے غالباً کوئی حد نہیں ہے۔ 2. دینی ناراضی تو عین ایمان کی علامت ہے۔ جب تک علت ناراضی موجود ہے‘ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے‘ جب وہ سبب دور ہو جائے تو ناراضی کو بھی ختم کر دینا چاہیے کیونکہ مومن صادق کے ہاں باہم تعلقات کا سبب دین ہے‘ دنیا نہیں۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1259
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4911
´مسلمان بھائی سے ترک تعلق کیسا ہے؟` ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے درست نہیں کہ وہ اپنے بھائی کو تین دن سے زیادہ چھوڑے رکھے کہ وہ دونوں ملیں تو یہ منہ پھیر لے، اور وہ منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام میں پہل کرے ۱؎۔“[سنن ابي داود/كتاب الأدب /حدیث: 4911]
فوائد ومسائل: اگر کہیں شک رنجی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی مقطہ کر لینا جائز نہیں۔ ہاں اگر مزید روابط بڑھانا خلافِ مصلحت ہو تو سلام دُعا سے بخیل نہیں ہونا چاہیئے۔ اس حدیث اور اگلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ سلام کرنا اور اسکا جواب دینا مقاطعے کے گناہ کو ختم کر دیتا ہے۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4911
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1932
´مسلمان سے ترک تعلق اور اس سے بےرخی برتنے کی حرمت کا بیان۔` ابوایوب انصاری رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ اپنے (کسی دوسرے مسلمان) بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام بند رکھے، جب دونوں کا آمنا سامنا ہو تو وہ اس سے منہ پھیر لے اور یہ اس سے منہ پھیر لے، اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو پہلے سلام کرے“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب البر والصلة/حدیث: 1932]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: معلوم ہواکہ تین دن سے زیادہ کسی مسلمان بھائی سے ذاتی نوعیت کے معاملات کی وجہ سے ناراض رہنا درست نہیں، اور اگراس ناراضگی کا تعلق کسی دینی معاملہ سے ہوتو علماء کا کہنا ہے کہ اس وقت تک قطع تعلق درست ہے جب تک وہ سبب دور نہ ہوجائے جس سے یہ دینی ناراضگی پائی جارہی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1932
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:381
381- سیدنا ابوایوب انصاری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے: ”کسی بھی مسلمان کے لئے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے بھائی سے تین دن سے زیادہ لاتعلقی اختیار کرے یوں کہ جب وہ دونوں ملیں، تو یہ ادھر منہ کرلے اور وہ ادھر منہ کرلے ان دونوں میں بہتر وہ ہوگا، جو سلام میں پہل کرے۔“ سفیان کہتے ہیں: زہری پہلے یہ روایت سیدنا انس رضی اللہ عنہ کے حوالے سے منقول روایت کے طور پر سناتے تھے، لیکن پھر انہوں نے اسے عطاء بن یزید کے حوالے سے سنانا شروع کردیا۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:381]
فائدہ: اس حدیث میں قطع کلامی کی مذمت کی گئی ہے۔ یادر ہے کہ ”یلتقیان“ کا تقاضا ہے کہ جب دو کے مابین لڑائی ہو جائے اور ان کی آپس میں ملاقات ہی نہ ہو، تو پھر یہ مذمت اس پر وارد نہیں ہوتی، ہاں یہ مذمت تب ہے کہ جب لڑائی کے بعد تین دن تک ان کی ملاقات بھی ہو، تب بھی وہ آپس میں نہ بولیں صلح کی طرف سبقت کرنے والا ثواب کا مستحق ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 381
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 6077
6077. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے، ا س طرح جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6077]
حدیث حاشیہ: اس کے بعد اگر وہ فریق ثانی بات چیت نہ کرے سلام کا جواب نہ دے تو وہ گنہگار رہے گا اور یہ شخص گناہ سے بچ جائے گا۔ قرآن کی آیت ادْفَعْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ کا یہی مطلب ہے کہ باہمی نا چاقی کو احسن طریق پر ختم کر دینا ہی بہتر ہے۔ اللہ پاک ہر مسلمان کو یہ آیت یاد رکھنے کی توفیق دے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 6077
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6077
6077. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”کسی آدمی کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے بھائی کے ساتھ تین دن سے زیادہ میل ملاقات چھوڑے رہے، ا س طرح جب دونوں کا سامنا ہو جائے تو یہ بھی منہ پھیر لے۔ اور ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:6077]
حدیث حاشیہ: (1) ان احادیث کے مطابق تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کرنا اور میل جول چھوڑ دینا جائز نہیں ہے۔ اگر کہیں ناراضی ہو جائے تو تعلقات کو بالکل ہی ختم کر لینا کسی صورت میں روا نہیں ہے۔ اگر مزید روابط بڑھانا خلاف مصلحت ہو تو سلام ودعا سے بخل کرنا درست نہیں۔ ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے تین دن سے زیادہ قطع تعلقی کی اور اسی حالت میں مرگیا تو وہ آگ میں جائے گا۔ “(مسند أحمد: 392/2، وإرواء الغلیل للألباني: 92/7، رقم: 2029) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث میں ہے: ”اگر تین دن قطع تعلقی پر گزر جائیں تو چاہیے کہ ان میں سے ایک دوسرے سے ملے اور اسے سلام کہے۔ اگر وہ سلام کا جواب دے دے تو اجرو ثواب میں دونوں شریک ہو گئے۔ اگر وہ جواب نہ دے تو اس کا گناہ اسی دوسرے پر ہے اور سلام کرنے والا قطع تعلقی کے گناہ سے نکل جاتا ہے۔ “(سنن أبي داود، الأدب، حدیث: 4219)(2) واضح رہے کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی اس صورت میں ناجائز ہے جب دنیاوی مفادات اور ذاتی معاملات کے پیش نظر ہو اور اگریہ قطع تعلقی اللہ تعالیٰ کے لیے ہوتو قابل تعریف ہے جیسا کہ امام بخاری رحمہ اللہ نے آئندہ عنوان میں بیان کیا ہے۔ واللہ أعلم
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6077
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:6237
6237. حضرت ابو ایوب انصاری ؓ سے روایت ہے وہ نبی ﷺ سے بیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ اپنے مسلمان بھائی سے تین دن سے زیادہ ترک سلام و کلام کرے۔ (وہ ایسے کہ) وہ دونوں ملیں تو ایک ادھر منہ پھیر لے دوسرا ادھر منہ پھیرلے۔ اور دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“ سفیان نے کہا کہ انہوں نے یہ حدیث امام زہری سے تین مرتبہ سنی ہے۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:6237]
حدیث حاشیہ: (1) اس عنوان کے دو اجزاء ہیں۔ یہ حدیث پہلے حصے پر دلالت کرتی ہے کہ جان پہچان والے کو بھی سلام کیا جائے، چنانچہ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ان کے پاس سے ایک آدمی گزرا تو اس نے یوں سلام کہا: اے عبدالرحمٰن! آپ پر سلام ہو۔ انہوں نے اسے جواب دینے کے بعد فرمایا: لوگوں پر وہ وقت بھی آئے گا کہ سلام صرف خاص لوگوں ہی کو کیا جائے گا۔ (الأدب المفرد، حدیث: 1049)(2) اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تین دن سے زیادہ قطع تعلقی حرام ہے، چنانچہ انسان میں موجود غصے کے پیش تین دن تک کے لیے ناراضی کی اجازت دی گئی ہے تاکہ اس مدت میں اس کا غصہ جاتا رہے۔ بہرحال سلام کرنا اسلام کا ایک شعار ہے جسے عام کرنا چاہیے۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 6237