360- وبه: أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا انتعل أحدكم فليبدأ باليمين، وإذا نزع فليبدأ بالشمال، ولتكن اليمين أولهما تنعل وآخرهما تنزع.“
اور اسی سند کے ساتھ (سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے) روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے اور جب جوتا اتارے تو بائیں سے شروع کرے۔ پہننے میں دایاں اول اور اتارنے میں دایاں آخر میں ہونا چاہئیے۔“[موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 422]
تخریج الحدیث: «360- الموطأ (رواية يحييٰي بن يحييٰي 916/2 ح 1767، ك 48 ب 7 ح 15) التمهيد 181/18 وقال: ”هذا حديث صحيح“، الاستذكار: 1699، وأخرجه البخاري (5856)، من حديث مالك به، وفي رواية يحيي بن يحيي: ”اليمنٰي“.»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 422
تخریج الحدیث: [وأخرجه البخاري 5856، من حديث مالك به ● وفي رواية يحيى بن يحيى: ”الْيُمْنٰى“] تفقه: ➊ اعمال صالحہ میں دائیں طرف کو بائیں طرف پر فضیلت حاصل ہے۔ ➋ استنجا اور امور مخصوصہ کے علاوہ ہر کام دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے۔ ➌ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وضو، کنگھی کرنے اور جوتے پہننے میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند کرتے تھے۔ [صحيح بخاري: 5854، صحيح مسلم: 268، دارالسلام: 616] بلکہ ایک روایت میں آیا ہے کہ آپ ہر معاملے میں دائیں طرف سے شروع کرنا پسند کرتے تھے۔ [صحيح مسلم: 67/268، دارالسلام: 617] حدیث میں مذکور جوتا پہننے اور اتارنے کا طریقہ سننِ مہجورہ میں سے ہے یعنی اس سلسلے میں بہت زیادہ کوتاہی برتی جاتی ہے بلکہ لوگوں کی اکثریت ایسی ہے کہ انھیں اس کا علم ہی نہیں ہے لہٰذا اس پر نہ صرف خود عمل پیرا ہوا جائے بلکہ دوسروں کو بھی دعوت عمل دی جائے۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 360
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عبدالسلام بن محمد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1247
´جوتا پہننے اور اتارنے کے آداب` «وعنه رضى الله عنه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وآله وسلم: إذا انتعل احدكم فليبدا باليمين وإذا نزع فليبدا بالشمال ولتكن اليمنى اولهما تنعل وآخرهما تنزع. متفق عليه» ”ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ہی روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں کوئی شخص جوتا پہنے تو دائیں سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے اور دایاں پاؤں دونوں میں سے پہلے ہو جس میں جوتا پہنا جائے اور دونوں سے آخری ہو جس سے جوتا اتارا جائے۔“[بلوغ المرام/كتاب الجامع/باب الأدب: 1247]
فوائد:
➊ وہ تمام کام جو زینت یا عزت یا شرف کا باعث ہوں انہیں دائیں طرف سے شروع کرنا چاہئے: «كان النبى صلى الله عليه وسلم يعجبه التيمن فى تنعله وترجله وطهوره وفي شأنه كله» ”نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں جانب سے شروع کرنا پسند تھا آپ کے جوتا پہننے میں کنگھی کرنے میں وضو میں اور اپنے تمام کاموں میں۔“[متفق عليه]
مثلاً شلوار پہننا، مسجد میں پاؤں رکھنا، سرمہ لگانا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دائیں جانب میں اللہ تعالیٰ نے زیادہ قوت اور صلاحیت رکھی ہے جس کی وجہ سے دائیں جانب زیادہ تکریم کی حق دار ہے۔
➋ جو کام اس کے برعکس ہوں ان میں بائیں طرف سے ابتداء کرنی چاہئے مثلاً مسجد سے نکلتے اور بیت الخلاء میں داخل ہوتے وقت بایاں پاؤں پہلے رکھے۔
➌ جوتا پہننا چونکہ باعث عزت و زینت ہے اس لئے دائیں پاؤں سے ابتداء کا حکم دیا۔ اور جوتا اتارنے میں اس کا الٹ ہے اس لئے دائیں پاؤں سے آخر میں جوتا اتارنے کا حکم دیا تاکہ وہ زیادہ سے زیادہ دیر تک مزین رہے۔ [قاله الحليمي۔ فتح]
➍ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھانے پینے، کپڑا پہننے اور وضو کے لئے دایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ اور استنجاء اور میل کچیل وغیرہ کی صفائی کے لئے بایاں ہاتھ استعمال کرتے تھے۔ [ابوداود كتاب الطهارة باب 18]، ناک بھی بائیں ہاتھ سے صاف کرتے تھے۔ [سنن الدارمي حديث 701]
➎ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دایاں ہاتھ استعمال کرنے سے محبت رکھتے تھے دائیں ہاتھ سے چیز لیتے دائیں سے ہی دیتے اور دائیں طرف اختیار کرنے کو اپنے تمام کاموں میں محبوب رکھتے۔ [نسائي/ الزينة باب 8 صحيح النسائي]
شرح بلوغ المرام من ادلۃ الاحکام کتاب الجامع، حدیث/صفحہ نمبر: 49
علامه صفي الرحمن مبارك پوري رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث بلوغ المرام 1247
´ادب کا بیان` سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جوتا پہننے لگے تو پہلے دائیں پاؤں میں پہنے اور جب اتارے تو پہلے بائیں پاؤں سے اتارے اور چاہیئے کہ دائیں پاؤں میں جوتا پہلے پہنا جائے اور دونوں پاؤں میں سے آخر میں دائیں پاؤں سے جوتا اتارا جائے۔ “(بخاری و مسلم) «بلوغ المرام/حدیث: 1247»
تخریج: «أخرجه البخاري، اللباس، باب ينزع نعله اليسري، حديث:5856، ومسلم، اللباس والزينة، باب استحباب لبس النعل في اليمني أولًا...، حديث:2097.»
تشریح: ہر باعث تکریم اور موجب عزت کام کا آغاز دائیں طرف سے ہونا چاہیے اور ہر کم اہمیت والا کام بائیں جانب سے شروع کیا جائے‘ مثلاً: جوتا پہننا‘ کنگھی کرنا‘ وضو کرنا‘ قمیص و شلوار یا پاجامہ وغیرہ پہننا دائیں طرف سے اور جوتا اتارنا‘ استنجا کرنا وغیرہ بائیں جانب سے۔ اسی طرح مسجد میں داخل ہوتے ہوئے پہلے دایاں پاؤں داخل کرنا چاہیے اور نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں باہر نکالنا چاہیے۔
بلوغ المرام شرح از صفی الرحمن مبارکپوری، حدیث/صفحہ نمبر: 1247
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث3616
´جوتے پہننے اور اتارنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جوتا پہنے تو دائیں پیر سے شروع کرے، اور اتارے تو پہلے بائیں پیر سے اتارے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب اللباس/حدیث: 3616]
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) دائیں اور بائیں کا فرق اسلامی تہذب کا ایک اہم اصول ہے۔
(2) دائیں ہاتھ سے یا دائیں طرف سے کرنے والے بعض کام یہ ہیں۔ کھانا، پینا، مصافحہ کرنا، کوئی چیز لینا یا دینا، لباس پہننا، جوتا پہننا، مسجد میں داخل ہونا، بیت الخلا سے باہر آنا، مسواک کرنا، وضو اور غسل کرنا، کنگھی کرنا، مونچھیں کاٹنا، بغلوں کے بال اکھاڑنا، لکھنا اور ہر وہ کام جو شرعاً یا عرفاً اچھا سمجھا جاتا ہے۔
(3) بائیں ہاتھ سے یا بائیں طرف سے کرنے کے بعض کام یہ ہیں: مسجد سے باہرآنا، بیت الخلا میں داخل ہونا، استنجا کرنا، ناک صاف کرنا، جوتا اتارنا اور اس طرح کے دوسرے کام۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 3616
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1779
´جوتا پہلے کس پاؤں میں پہننا چاہئے۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم میں سے جب کوئی جوتا پہنے تو داہنے پیر سے شروع کرے اور جب اتارے تو بائیں سے شروع کرے، پہننے میں داہنا پاؤں پہلے اور اتارنے میں پیچھے ہو“۱؎۔ [سنن ترمذي/كتاب اللباس/حدیث: 1779]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: جوتا پہننا پاؤں کے لیے عزت و تکریم کا باعث ہے، اس لحاظ سے اس تکریم کا مستحق داہنا پاؤں سب سے زیادہ ہے، کیوں کہ دایاں پاؤں بائیں سے بہتر ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 1779
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5495
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب تم میں سے کوئی جوتی پہنے تو دائیں پیر سے ابتدا کرے اور جب اتارے تو بائیں سے ابتدا کرے اور دونوں جوتے اکٹھے پہنے یا دونوں جوتے اتار دے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:5495]
حدیث حاشیہ: فوائد ومسائل: جوتا پہننا عزت و شرف کا باعث ہے، کیونکہ پاؤں کے لیے آرام دہ حفاظت کا باعث ہے، چونکہ آپ ہر شرف و عزت والا کام دائیں طرف سے شروع کرتے تھے، اس لیے آپ نے جوتوں کے لیے بھی یہی حکم دیا اور اتارنا عزت و شرف نہیں، اس لیے بایاں پہلے اتارا جائے گا، چونکہ جوتا پہننا عزت و شرف اور پاؤں کی حفاظت و زینت کا باعث ہے، اس لیے دونوں جوتے پہنے جائیں گے، یا دونوں اتارے جائیں گے، تاکہ دونوں پیروں میں مساوات اور برابری قائم رہے، اگر ایک جوتا پہنے گا تو دوسرا پاؤں غیر محفوظ اور زینت سے محروم ہو گا اور اس کی حفاظت کے لیے خصوصی اہتمام کرنا پڑے گا، نیز انسان کی چال ڈھال، میں بھی توازن قائم نہیں رہے گا اور انسان کو لوگ عجیب نظروں سے دیکھیں گے، کیونکہ وہ بے ڈھنگی چال چلے گا اور اونچ نیچ کی بنا پر گرنے کا بھی خطرہ ہے۔
تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5495
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5855
5855. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے، دونوں ننگے رکھے یا دونوں میں جوتا پہنے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5855]
حدیث حاشیہ: یہ اسلامی آداب ہیں جو بے شمار فوائد پر مشتمل ہیں۔ دائیں اور بائیں کا امتیاز ہدایت شرعی کے مطابق ملحوظ رکھنا بہت ضروری ہے۔ "Eحسن الھدی ھد` محمد صلی اللہ علیه وسلم'' کا یہی مطلب ہے کہ بہترین طرز زندگی وہ ہے جس کا نمونہ جناب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پیش فرمایا ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5855
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:5855
5855. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”تم میں سے کوئی ایک جوتا پہن کر نہ چلے، دونوں ننگے رکھے یا دونوں میں جوتا پہنے۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:5855]
حدیث حاشیہ: (1) جوتا پہننے کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بہت سے آداب سے آگاہ کیا ہے، ان میں سے ایک یہ ہے کہ صرف ایک جوتا پہن کر نہ چلے۔ اس میں کئی ایک حکمتیں ہیں جن کی تفصیل حسب ذیل ہے: ٭ اس طرح چلنے میں مشقت کے علاوہ پھسلنے، کانٹا لگنے اور موچ آنے کا اندیشہ ہے۔ ٭ دیکھنے والوں کی نگاہ میں معیوب ہے کہ ایک پاؤں میں جوتا ہو اور دوسرا ننگا ہو۔ ٭ چلنے والوں کی نگاہیں اس طرف اٹھتی ہیں کہ شاید اس کی ایک ٹانگ چھوٹی ہے۔ ٭ کچھ اہل علم نے اس طرح چلنے کو شیطان کی چال قرار دیا ہے۔ (عمدۃ القاری: 15/62)(2) حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ ممانعت موزوں کے متعلق بھی ہے، اسی طرح قمیص کا ایک بازو نکال کر رکھنا اور ایک کندھے کو ننگا رکھنا اور دوسرے کو چادر سے ڈھانپنا، سب چیزیں اس نہی میں شامل ہیں۔ (فتح الباری: 10/383)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 5855