376- مالك عن عبد الله بن يزيد مولى الأسود بن سفيان عن أبى سلمة بن عبد الرحمن وعن محمد بن عبد الرحمن بن ثوبان عن أبى هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: ”إذا كان الحر فأبردوا عن الصلاة فإن شدة الحر من فيح جهنم“ وذكر ”أن النار اشتكت إلى ربها فأذن لها فى كل عام بنفسين، نفس فى الشتاء ونفس فى الصيف“.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی (زیادہ) ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کے سانس لینے میں سے ہے۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا کہ (جہنم کی) آگ نے اپنے رب سے شکایت کی تو اسے ہر سال میں دو سانسوں کی اجازت دی، ایک سردیوں میں اور دوسرا گرمیوں میں۔ [موطا امام مالك رواية ابن القاسم/حدیث: 25]
تخریج الحدیث: «376- الموطأ (رواية يحيیٰي بن يحيیٰي 16/1، ح 27، ك 1 ب 7 ح 28) التمهيد 112/19، الاستذكار: دیکھئے 97/1 ح 25، و أخرجه مسلم (617/186) من حديث مالك به .»
حافظ زبير على زئي رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث موطا امام مالك رواية ابن القاسم 25
تخریج الحدیث: [وأخرجه مسلم 617/186، من حديث مالك به]
تفقه: ➊ نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس حکم کا تعلق سفر سے ہے۔ دیکھئے [الموطأ حديث: 323، وصحيح بخاري:533] ➋ جہنم کا سانس لینا برحق اور غیب میں سے ہے جس پر ایمان لانا واجب ہے۔ ➌ جہاں موانع ہوں تو ان کی وجہ سے گرمی یا سردی سے رکاوٹ ہوسکتی ہے۔ ➍ الله تعالیٰ جس سے اور جب چاہے کلام کرائے خواہ وہ زمین و آسمان ہوں یا جہنم ہو کیونکہ قوت گویائی اور ہر قوت اسی کے اختیار میں ہے۔ ➎ جنت اور جہنم پیدا شدہ اور موجود ہیں۔
موطا امام مالک روایۃ ابن القاسم شرح از زبیر علی زئی، حدیث/صفحہ نمبر: 376
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 501
´سخت گرمی میں ظہر ٹھنڈی کر کے پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈی کر کے پڑھو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کے جوش مارنے کی وجہ سے ہے“۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب المواقيت/حدیث: 501]
501 ۔ اردو حاشیہ: ➊سخت گرمیوں میں ظہر کو مؤخر کرنا ضرورت کی بنا پر ہے یا مستحب؟ اس میں اختلاف ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کا خیال ہے کہ اگر لوگوں کو آمدورفت اور نماز کی ادائیگی میں تکلیف نہ ہو، مثلاً: لوگ پہلے سے جمع ہیں اور نماز کی جگہ سایہ دار ہے تو نماز اول وقت میں ادا کرنا ہی افضل ہے۔ اگر نمازیوں کو تکلیف ہو تو نماز لیٹ کی جا سکتی ہے، جب کہ بعض اہل علم کا خیال ہے کہ شدت گرمی کا وقت جہنم کے ساتھ تشبیہ کی بنا پر مکروہ ہوتا ہے، لہٰذا اس وقت میں نماز مناسب نہیں، تاخیر کرنی چاہیے۔ دیگر دلائل کی روشنی میں پہلے موقف کی تائید ہوتی ہے۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اسی کو اظہر قرار دیا ہے۔ چونکہ سردیوں میں اس شدت کا سامنا نہیں ہوتا اور تکلیف بھی محسوس نہیں ہوتی، اس لیے نماز جلدی پڑھنا مستحب ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ نے علت کو مقدم رکھا ہے۔ ➋”جہنم کا جوش“ بہت سے اہل علم نے اسے حقیقت پر محمول کیا ہے کہ گرمی کا تعلق جہنم کے ساتھ ہے۔ جب جہنم کو جوش آتا ہے تو گرمی زیادہ ہو جاتی ہے اور یہ کوئی بعید نہیں۔ اور الفاظ کا ظاہری معنیٰ مراد لینا ہی بہتر ہے۔ دنیا کا سارا نظام ہی غیرمرئی سہاروں پر قائم ہے۔ ممکن ہے کہ سورج کا جہنم سے کوئی تعلق ہو، البتہ بعض حضرات کے بقول اگر اسے تشبیہ پر محمول کیا جائے تو بلاغتِ کلام کا بہترین نمونہ ہو گا، یعنی گرمی کی شدت تکلیف دہ چیز ہے، جہنم کی لو کی طرح۔ اہل اسلام کے نزدیک سب سے لذیذ چیز جنت ہے اور سب سے تکلیف دہ اور قبیح چیز جہنم ہے، اس لیے مفید، اچھی اور لذیذ چیز کی نسبت جنت کی طرف اور تکلیف اور نقصان دہ اور قبیح چیز کی نسبت جہنم کی طرف کر دی جاتی ہے۔ یہی حال فرشتے اور شیطان کی طرف نسبت کا ہے کہ مقصد صرف تشبیہ اور ذہنی توجہ ہوتی ہے نہ کہ ظاہر الفاظ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بلیغ ترین انسان تھے۔ آپ کا کلام تشبیہات، استعارات اور کنایات کا اعلیٰ نمونہ ہوتا تھا، لہٰذا کوئی بعید نہیں کہ یہ کلام بھی تشبیہ بلیغ کا نمونہ ہو۔ واللہ اعلم۔ ➌جنت اور جہنم کا وجود موجود ہے۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 501
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث677
´سخت گرمی ہو تو ظہر کو ٹھنڈا کر کے (یعنی تاخیر سے) پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو جائے تو نماز ٹھنڈی کر لو، اس لیے کہ گرمی کی شدت جہنم کی لپٹ سے ہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الصلاة/حدیث: 677]
اردو حاشہ: (1) شدید گرمی میں نماز کو تاخیر سے ادا کرنے میں یہ حکمت ہے کہ گرمی کی شدت نماز میں توجہ اور خشوع سے رکاوٹ بنتی ہے اس لیے گرمی کی تخفیف کے وقت نماز زیادہ توجہ سے ادا کی جا سکے گی تاہم یہ تاخیر بہت زیادہ نہیں ہونی چاہیے۔
(2) گرمی کی شدت کو جہنم کی بھاپ کی وجہ قرار دیا گیا ہے اس کو بعض علماء نے تشبیہ اور مجاز پر محمول کیا ہے لیکن زیادہ بہتر یہ ہے کہ اسے حقیقت پر محمول کیا جائے کیونکہ ظاہری حالات کے کچھ اسباب ہمیں معلوم ہوتے ہیں اور کچھ ایسے اسباب بھی ہوتے ہیں جن کا تعلق عالم غیب مثلاً: فرشتوں یا جنت یا جہنم سے ہوتا ہے۔ عالم غیب پر ایمان لانے کے بعد اس کے بعض امور کا ظاہری دنیا کے معاملات سے متعلق ہونا کسی اشکال کا باعث نہیں۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: جہنم نے رب سے شکایت کرتے ہوئے عرض کیا: یا رب میرا ایک حصہ دوسرے کو کھائے جا رہا ہے (میری حرارت خود میرے لیے ناقابل برداشت ہوئی جاتی ہے) تو اللہ تعالی نے اسے دوسانس لینے کی اجازت دی ایک سانس سردی کے موسم میں اور ایک سانس گرمی کے موسم میں تم لوگ جو سخت ترین گرمی (کی لہر) یا سخت ترین سردی (کی لہر) محسوس کرتے ہو وہ یہی ہے۔ (صحيح البخاري، بدء الخلق، باب صفة النار وأنها مخلوقة، حديث: 3260، وصحيح مسلم، المساجد، باب استجاب الإبراد بالظهر في شدة الحر لمن يمضي الي جماعة ويناله الحر في طريقه، حديث: 618)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 677
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 157
´سخت گرمی میں ظہر دیر سے پڑھنے کا بیان۔` ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب گرمی سخت ہو تو نماز ٹھنڈا ہونے پر پڑھو ۱؎ کیونکہ گرمی کی تیزی جہنم کی بھاپ سے ہے“۲؎۔ [سنن ترمذي/كتاب الصلاة/حدیث: 157]
اردو حاشہ: 1؎: یعنی کچھ انتظار کر لو ٹھنڈا ہو جائے تب پڑھو، اس حدیث سے معلوم ہوا کہ موسم گرما میں ظہر قدرے تاخیر کرکے پڑھنی چاہئے اس تاخیر کی حد کے بارے میں ابو داود اور نسائی میں ایک روایت آئی ہے کہ رسول اللہ ﷺ موسم گرما میں ظہر میں اتنی تاخیر کرتے کہ سایہ تین قدم سے لے کر پانچ قدم تک ہو جاتا، مگر علامہ خطابی نے کہا ہے کہ یہ قاعدہ کلیہ نہیں ہے بلکہ طول البلد اور عرض البلد کے اعتبار سے اس کا حساب بھی مختلف ہو گا، بہر حال موسم گرما میں نمازِ ظہر قدرے تاخیر سے پڑھنی مستحب ہے، یہی جمہور کی رائے ہے۔
2؎: اسے حقیقی اور ظاہری معنی پر محمول کرنا زیادہ صحیح ہے کیونکہ صحیحین کی روایت میں ہے کہ جہنم کی آگ نے رب عزوجل سے شکایت کی کہ میرے بعض اجزاء گرمی کی شدّت اور گھٹن سے بعض کو کھا گئے ہیں تو رب عزوجل نے اسے دو سانس لینے کی اجازت دی ایک جاڑے میں اور ایک گرمی میں، جاڑے میں سانس اندر کی طرف لیتی ہے اور گرمی میں باہر نکالتی ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث/صفحہ نمبر: 157
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:971
971- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: ”جب گرمی شدید ہو، تو نماز کو ٹھنڈا کرکے ادا کرو کیونکہ گرمی کی شدت جہنم کی تپش کا حصہ ہے۔“[مسند الحمیدی/حدیث نمبر:971]
فائدہ: اس حدیث میں مسجد حرام میں نماز پڑھنے کی فضیلت وارد ہوئی ہے، مسجد حرام میں نماز پڑھنے کا ثواب دیگر مساجد میں نماز پڑھنے سے ایک لاکھ گنا زیادہ ہے، اور مسجد نبوی سے ایک سو گنا زیادہ ہے۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 970
الشيخ محمد ابراهيم بن بشير حفظ الله، فوائد و مسائل، مسند الحميدي، تحت الحديث:972
972- (راوی بیان کرتے ہیں:) نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات بھی ارشاد فرمائی ہے: جہنم نے اپنے پروردگار کی بارگاہ میں شکایت کی، اس نے عرض کی: اے میرے پروردگار! میرا ایک حصہ دوسرے کو کھا جاتا ہے، تو اللہ تعالیٰ نے اسے دومرتبہ سانس لینے کی اجازت دی۔ ایک سانس سردی میں ہوتی ہے اور ایک سانس گرمی میں ہوتی ہے۔ تو جب تم شدید ترین گرمی پاتے ہو، تو وہ اس کی گرم سانس کا نتیجہ ہوتی ہے اور جب تم شدید ترین سردی پاتے ہو، تو وہ اس کی ٹھنڈی سانس کا نتیجہ ہوتی ہے۔ [مسند الحمیدی/حدیث نمبر:972]
فائدہ: اس حدیث سے ثابت ہوا کہ جہنم بھی اللہ تعالیٰ کے تابع ہے، اور اس حدیث سے ثابت ہوا کہ انسان کے علاوہ بھی جو مخلوق اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہے، اللہ تعالیٰ اس کی دعا سنتے ہیں۔
مسند الحمیدی شرح از محمد ابراهيم بن بشير، حدیث/صفحہ نمبر: 971
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 1395
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”جب شدید گرمی ہو تو نماز ٹھنڈے وقت میں پڑھو کیونکہ گرمی کی شدت، دوزخ کی بھاپ یا آتش دوزخ کے جوش سے ہے۔“[صحيح مسلم، حديث نمبر:1395]
حدیث حاشیہ: مفردات الحدیث: فَيْحِ جَهَنَّم: جہنم کی گرمی کا انتشارو پھیلاؤ اور اس کا جوش۔ فوائد ومسائل: مولانا منظور احمد نعمانی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے دنیا میں ہم جو دیکھتے اور محسوس کرتے ہیں اس کے کچھ تو ظاہری اسباب ہوتے ہیں جنھیں ہم خود بھی سمجھتے اور جانتے ہیں اور کچھ باطنی اسباب ہوتے ہیں جو ہمارے احساس وادراک کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں انبیاء علیہ السلام کبھی کبھی ان کی طرف اشارے فرماتے ہیں اس حدیث میں جو یہ فرمایا گیا ہے کہ گرمی کی شدت آتش دوزخ کے جوش سے ہےیہ اسی قبیل کی چیز ہے گرمی کی شدت کا ظاہر سبب تو آفتاب ہے اور اس بات کو ہر شخص سمجھتا ہے اور کوئی بھی اس سے انکار نہیں کر سکتا لیکن عالم باطن اور عالم غیب میں اس کا تعلق جہنم کی آگ سے بھی ہے اور یہ ان حقائق میں سے ہے جو انبیاء عليهم السلام ہی کے ذریعہ معلوم ہو سکتے ہیں۔